Students of AIOU Course Code 465 (Population and Development) can now study smarter with our specially prepared solved guess paper. This paper highlights the most important solved questions and key topics from the syllabus, carefully chosen from past exam trends. It is designed to save your time, provide clear guidance, and help you focus on the areas that are most likely to appear in exams. You can download the AIOU 465 Solved Guess Paper from our website mrpakistani.com and also watch supportive lectures on our YouTube channel Asif Brain Academy.
465 Code Population and Development Solved Guess Paper
سوال نمبر 1:
پاکستان میں کمیونی کیشن اور ٹرانسپورٹیشن کے شعبوں کی یہ صورتیں ہیں؟ انہیں کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟
تعارف:
کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کا انحصار اس کے کمیونی کیشن اور ٹرانسپورٹیشن کے نظام پر ہوتا ہے۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں ان دونوں شعبوں کی بہت اہمیت ہے۔
بہتر کمیونی کیشن اور ٹرانسپورٹ نہ صرف عوام کو باہم جوڑتے ہیں بلکہ معیشت، تجارت، تعلیم اور سماجی تعلقات کے فروغ
میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
اس وقت پاکستان میں کمیونی کیشن اور ٹرانسپورٹیشن کے شعبے اگرچہ ترقی کر رہے ہیں لیکن پھر بھی بہت سے مسائل اور
چیلنجز کا سامنا ہے۔
پاکستان میں کمیونی کیشن کا موجودہ منظرنامہ:
پاکستان میں کمیونی کیشن کا دائرہ بہت وسیع ہے جس میں ٹیلیفون، موبائل فون، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا شامل ہیں۔ آج کل ملک میں موبائل فون صارفین کی تعداد کروڑوں میں ہے اور انٹرنیٹ کا استعمال بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ تاہم، دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی رفتار اور رسائی محدود ہے، جس کی وجہ سے تعلیمی و تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ، بعض اوقات جدید ٹیکنالوجی کا فقدان اور سرمایہ کاری کی کمی بھی کمیونی کیشن کی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہے۔
پاکستان میں ٹرانسپورٹیشن کا موجودہ منظرنامہ:
پاکستان میں ٹرانسپورٹیشن کے مختلف ذرائع موجود ہیں جن میں سڑکیں، ریل، فضائی اور بحری راستے شامل ہیں۔ سڑکوں کا جال اگرچہ پھیلا ہوا ہے لیکن زیادہ تر سڑکیں خستہ حالی کا شکار ہیں۔ موٹرویز اور ہائی ویز نے سفر کو آسان ضرور بنایا ہے لیکن اندرونی دیہی سڑکیں ابھی بھی ناقص ہیں۔ ریل کا نظام بھی اپنی پوری صلاحیت کے مطابق استعمال نہیں ہو رہا اور جدید سہولیات کی کمی کے باعث عوام کا اعتماد کم ہو رہا ہے۔ فضائی ٹرانسپورٹ مہنگی ہے اور عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے جبکہ بحری راستے اپنی مکمل استعداد سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔
کمیونی کیشن کے مسائل:
- دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک کی کمی۔
- انٹرنیٹ کی رفتار اور معیار کا کم ہونا۔
- جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کا فقدان۔
- سائبر سکیورٹی کے مسائل اور معلوماتی تحفظ کی کمی۔
ٹرانسپورٹیشن کے مسائل:
- سڑکوں کی خستہ حالی اور ناقص دیکھ بھال۔
- ٹریفک کا دباؤ اور حادثات کی کثرت۔
- ریل کے نظام کی پسماندگی اور جدید سہولیات کی کمی۔
- فضائی سفر کی زیادہ لاگت۔
- بحری راستوں کا غیر موثر استعمال۔
بہتری کے اقدامات:
پاکستان میں کمیونی کیشن اور ٹرانسپورٹیشن کے شعبوں کو بہتر بنانے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں:
کمیونی کیشن کے لیے:
- دیہی اور پسماندہ علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک کا پھیلاؤ۔
- انٹرنیٹ کی رفتار بڑھانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال۔
- سائبر سکیورٹی کے نظام کو مضبوط بنانا۔
- جدید ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر سرمایہ کاری اور مقامی صنعت کی حوصلہ افزائی۔
ٹرانسپورٹیشن کے لیے:
- سڑکوں کی مرمت اور نئے انفراسٹرکچر کی تعمیر۔
- شہری علاقوں میں جدید ٹریفک مینجمنٹ سسٹم کا نفاذ۔
- ریل کے نظام کو جدید بنانا اور اس میں سرمایہ کاری۔
- فضائی سفر کو عوامی سطح پر سستا بنانے کے اقدامات۔
- گوادر اور کراچی جیسے بحری راستوں کو عالمی سطح پر مسابقتی بنانے کے لیے ترقی دینا۔
نتیجہ:
نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کمیونی کیشن اور ٹرانسپورٹیشن دونوں شعبوں میں ترقی کی گنجائش بہت زیادہ
ہے۔
اگر حکومت جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرے، بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنائے اور عوامی ضروریات کو مدنظر رکھ کر
منصوبہ بندی کرے تو یہ دونوں شعبے نہ صرف عوامی زندگی کو آسان بنائیں گے بلکہ ملکی معیشت کو بھی نئی بلندیوں تک
پہنچا سکتے ہیں۔
ایک مضبوط کمیونی کیشن اور ٹرانسپورٹیشن کا نظام ہی کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے اور پاکستان کو
بھی اس سمت میں سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال نمبر 2:
نقل مکانی کے عمل کی وضاحت کریں۔ اندرون ملک نقل مکانی کو کیسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟
تعارف:
نقل مکانی ایک ایسا سماجی اور معاشی عمل ہے جس کے ذریعے افراد یا گروہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں۔
یہ منتقلی کسی دوسرے ملک کی طرف بھی ہو سکتی ہے (بین الاقوامی نقل مکانی) اور ایک ہی ملک کے اندر ایک علاقے سے دوسرے
علاقے میں بھی (اندرون ملک نقل مکانی)۔
اس کے پس منظر میں مختلف وجوہات کارفرما ہوتی ہیں جن میں معاشی مواقع، تعلیمی سہولیات، صحت کی سہولتیں، ملازمت کی
تلاش، بہتر معیارِ زندگی اور کبھی کبھار قدرتی آفات یا سماجی مسائل شامل ہوتے ہیں۔
نقل مکانی کی وضاحت:
نقل مکانی کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ یہ انسانی حرکت (Human Movement) ہے جو وقتی یا مستقل بنیادوں پر ہوتی ہے۔ اندرون ملک نقل مکانی میں لوگ دیہی علاقوں سے شہری مراکز کی طرف زیادہ منتقل ہوتے ہیں جسے دیہی سے شہری ہجرت بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے شہروں پر آبادی کا بوجھ بڑھ جاتا ہے جبکہ دیہی علاقے خالی ہوتے جاتے ہیں۔
نقل مکانی کی اقسام:
- اندرون ملک نقل مکانی: ایک ہی ملک کے اندر دیہی سے شہری یا ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف نقل مکانی۔
- بین الاقوامی نقل مکانی: جب لوگ ایک ملک سے دوسرے ملک جاتے ہیں روزگار یا تعلیم کے لیے۔
- رضاکارانہ نقل مکانی: بہتر مواقع اور سہولتوں کی تلاش میں اپنی مرضی سے ہجرت۔
- جبری نقل مکانی: جنگ، دہشتگردی یا قدرتی آفات کی وجہ سے علاقہ چھوڑنا۔
اندرون ملک نقل مکانی کی وجوہات:
- دیہی علاقوں میں روزگار کے مواقع کی کمی۔
- تعلیمی اداروں اور صحت کی سہولیات کا فقدان۔
- شہروں میں زیادہ آمدنی اور بہتر سہولتوں کی دستیابی۔
- زرعی زمینوں کی قلت اور جدید زرعی ٹیکنالوجی کی کمی۔
- قدرتی آفات مثلاً سیلاب، خشک سالی وغیرہ۔
اندرون ملک نقل مکانی کے اثرات:
شہری علاقوں پر اثرات:
- آبادی میں تیزی سے اضافہ اور رہائش کے مسائل۔
- بے روزگاری اور جرائم کی شرح میں اضافہ۔
- ٹریفک، آلودگی اور کچی آبادیوں کا بڑھنا۔
- تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں پر بوجھ۔
دیہی علاقوں پر اثرات:
- زرعی مزدوروں کی کمی۔
- زرعی پیداوار میں کمی۔
- دیہات میں ترقی کا عمل سست ہونا۔
- ثقافتی اور خاندانی نظام پر منفی اثرات۔
اندرون ملک نقل مکانی کو کنٹرول کرنے کے اقدامات:
- دیہی علاقوں میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا تاکہ لوگ شہروں کی طرف ہجرت نہ کریں۔
- تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کا قیام چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں۔
- ہسپتالوں اور صحت کی سہولیات کو دیہات میں بھی مؤثر اور سستا بنانا۔
- زرعی اصلاحات کے ذریعے دیہی معیشت کو مضبوط کرنا۔
- چھوٹے شہروں کو صنعتی مراکز میں تبدیل کرنا تاکہ بڑے شہروں کا بوجھ کم ہو۔
- بنیادی ڈھانچے کی ترقی مثلاً بجلی، گیس، سڑکیں اور انٹرنیٹ دیہی علاقوں میں فراہم کرنا۔
- دیہی نوجوانوں کے لیے ہنر مندی کے ادارے قائم کرنا۔
نتیجہ:
نتیجہ یہ ہے کہ نقل مکانی ایک فطری عمل ہے لیکن جب یہ غیر متوازن ہو جائے تو معاشرتی اور معاشی مسائل پیدا کرتی ہے۔
اندرون ملک نقل مکانی کو صرف اسی صورت میں کنٹرول کیا جا سکتا ہے جب حکومت دیہی علاقوں میں سہولتیں اور مواقع فراہم
کرے۔
اس طرح نہ صرف شہروں کا بوجھ کم ہوگا بلکہ دیہی زندگی بھی بہتر ہوگی اور ملک مجموعی طور پر ترقی کی راہ پر گامزن
ہوگا۔
سوال نمبر 3:
خواتین کی صحت، تعلیم اور روزگار کی اہمیت و ضرورت پر جامع تحریر کریں۔
تعارف:
کسی بھی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی خواتین کے کردار کے بغیر ممکن نہیں۔
خواتین معاشرے کا نصف حصہ ہیں اور اگر وہ صحت مند، تعلیم یافتہ اور بااختیار ہوں تو پورا معاشرہ ترقی کرتا ہے۔
خواتین کی صحت، تعلیم اور روزگار نہ صرف انفرادی زندگی کے معیار کو بہتر بناتے ہیں بلکہ معاشرتی اور قومی ترقی کی
بنیاد بھی فراہم کرتے ہیں۔
خواتین کی صحت کی اہمیت:
صحت مند خواتین ہی صحت مند خاندان اور معاشرہ تشکیل دے سکتی ہیں۔ ایک ماں کی صحت براہِ راست اس کے بچوں کی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے۔
- خواتین کی اچھی صحت زچگی کے دوران پیچیدگیوں کو کم کرتی ہے۔
- صحتمند مائیں صحتمند نسل کی پرورش کرتی ہیں۔
- غذائیت کی کمی اور کمزور صحت خواتین کو سماجی و معاشی سرگرمیوں میں پیچھے رکھتی ہے۔
- خواتین کی صحت پر توجہ دینے سے ملکی صحت کے مجموعی اشاریے بہتر ہوتے ہیں۔
خواتین کی تعلیم کی اہمیت:
تعلیم ایک ایسا زیور ہے جو نہ صرف شخصیت سنوارتی ہے بلکہ زندگی کو مقصد اور سمت بھی دیتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت اپنے بچوں کو بہتر تربیت دیتی ہے اور معاشرے کی فلاح و بہبود میں کردار ادا کرتی ہے۔
- تعلیم یافتہ خواتین اپنے حقوق و فرائض کو بہتر سمجھتی ہیں۔
- وہ اپنے بچوں کو بہتر تربیت اور تعلیم فراہم کرتی ہیں۔
- تعلیم خواتین میں خود اعتمادی اور فیصلہ سازی کی قوت پیدا کرتی ہے۔
- تعلیم یافتہ خواتین گھریلو تشدد اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں۔
- ملک کی شرح خواندگی اور ترقی کے اشاریے خواتین کی تعلیم کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتے۔
خواتین کے روزگار کی اہمیت:
روزگار خواتین کو معاشی طور پر خود مختار بناتا ہے اور خاندان کی معاشی حالت بہتر کرنے میں مدد دیتا ہے۔ جب خواتین معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں تو قومی معیشت بھی مضبوط ہوتی ہے۔
- خواتین کا روزگار خاندانی آمدنی میں اضافہ کرتا ہے۔
- خواتین کی معاشی آزادی انہیں سماجی دباؤ سے نکالتی ہے۔
- روزگار خواتین کو بااختیار بناتا ہے اور فیصلہ سازی میں شامل کرتا ہے۔
- ملکی معیشت کو بڑھانے میں خواتین کی شرکت لازمی ہے۔
- کاروبار، تدریس، طب، آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں خواتین کی موجودگی ترقی کی ضمانت ہے۔
خواتین کی صحت، تعلیم اور روزگار کا باہمی تعلق:
خواتین کی صحت، تعلیم اور روزگار ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ اگر ایک عورت صحت مند ہے تو وہ بہتر طریقے سے تعلیم حاصل کر سکتی ہے۔ تعلیم یافتہ عورت آسانی سے روزگار کے مواقع حاصل کر کے خود مختاری حاصل کرتی ہے۔ اسی طرح روزگار اور تعلیم ملنے کے بعد وہ اپنی صحت کا بھی بہتر خیال رکھتی ہے۔ یوں یہ تینوں پہلو ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں۔
ضرورت:
- حکومت کو خواتین کی صحت کے لیے ہسپتال اور مراکز صحت قائم کرنے چاہئیں۔
- دیہی علاقوں میں خواتین کے لیے تعلیم اور ہنر مندی کے ادارے قائم کیے جائیں۔
- خواتین کے لیے محفوظ اور مساوی روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔
- معاشرتی رویوں میں تبدیلی لائی جائے تاکہ خواتین کو کمزور نہ سمجھا جائے۔
- قانون سازی کے ذریعے خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
نتیجہ:
نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ خواتین کی صحت، تعلیم اور روزگار کسی بھی ملک کی ترقی کے بنیادی ستون ہیں۔
اگر خواتین کو صحت مند، تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر مضبوط بنایا جائے تو وہ نہ صرف اپنے خاندان بلکہ پورے معاشرے
کے لیے ترقی اور خوشحالی کی ضامن بن سکتی ہیں۔
اس لیے یہ ہماری قومی ذمہ داری ہے کہ خواتین کو ہر میدان میں سہولیات اور مواقع فراہم کریں تاکہ ایک متوازن، خوشحال
اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل پا سکے۔
سوال نمبر 4:
جدید زرعی ٹیکنالوجی کے خوراک پر مثبت اور منفی اثرات کا جائزہ پیش کریں۔
تعارف:
زراعت کسی بھی ملک کی معیشت اور عوامی زندگی کی بنیاد ہے۔ جدید دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے زراعت کو ایک
نئے انقلاب سے آشنا کیا ہے۔
جدید زرعی ٹیکنالوجی جیسے ہائیبرڈ بیج، جدید کھادیں، مشینی آلات، ڈرپ اریگیشن، بایو ٹیکنالوجی اور انفارمیشن
ٹیکنالوجی نے خوراک کی پیداوار میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔
تاہم جہاں یہ ٹیکنالوجی بے شمار مثبت پہلو رکھتی ہے وہیں اس کے کچھ منفی اثرات بھی سامنے آئے ہیں۔ اس سوال میں ہم ان
دونوں پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ پیش کریں گے۔
جدید زرعی ٹیکنالوجی کے مثبت اثرات:
- پیداوار میں اضافہ: ہائیبرڈ بیج اور جینیاتی انجینئرنگ کی بدولت فی ایکڑ پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، جس سے غذائی قلت میں کمی آئی ہے۔
- خوراک کی دستیابی: جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے خوراک زیادہ مقدار میں اور سال بھر دستیاب ہو گئی ہے، جس سے عوام کی بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔
- پانی کی بچت: ڈرپ اور اسپرنکلر اریگیشن جیسے جدید نظام پانی کے استعمال میں کمی لا کر قیمتی وسائل کو محفوظ کر رہے ہیں۔
- وقت اور محنت کی بچت: جدید زرعی مشینری جیسے ٹریکٹر، ہارویسٹر اور اسپرے مشینوں نے کسانوں کی محنت کو کم اور وقت کو زیادہ مؤثر بنا دیا ہے۔
- فصلوں کی بیماریوں سے حفاظت: کیمیائی کھادوں اور اسپرے کے استعمال سے کیڑوں اور بیماریوں پر قابو پایا گیا ہے، جس سے خوراک کا معیار بہتر ہوا ہے۔
- معاشی بہتری: پیداوار بڑھنے سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے جس سے ملکی معیشت مضبوط ہوئی ہے۔
- غذائیت میں اضافہ: بایو ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسی فصلیں تیار کی جا رہی ہیں جن میں وٹامنز اور معدنیات کی مقدار زیادہ ہے۔
جدید زرعی ٹیکنالوجی کے منفی اثرات:
- ماحولیاتی آلودگی: کیمیائی کھادوں اور کیڑے مار ادویات کے زیادہ استعمال سے زمین کی زرخیزی متاثر ہو رہی ہے اور زیر زمین پانی آلودہ ہو رہا ہے۔
- صحت کے مسائل: زہریلی ادویات اور کیمیائی اجزاء خوراک میں شامل ہو کر انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں، جن سے کینسر، جلدی امراض اور دیگر بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
- قدرتی وسائل پر دباؤ: مشینی زراعت اور جدید آلات کے استعمال سے پانی، زمین اور توانائی کے وسائل پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔
- چھوٹے کسانوں کی مشکلات: جدید ٹیکنالوجی مہنگی ہونے کی وجہ سے چھوٹے کسان اسے استعمال کرنے سے قاصر رہتے ہیں، جس سے معاشرتی اور معاشی تفاوت میں اضافہ ہوتا ہے۔
- مٹی کی زرخیزی میں کمی: کیمیائی کھادوں کے حد سے زیادہ استعمال نے مٹی کے قدرتی اجزاء کو نقصان پہنچایا ہے، جس سے مستقبل میں زرعی پیداوار کم ہو سکتی ہے۔
- حیاتیاتی تنوع کا خاتمہ: صرف مخصوص ہائیبرڈ بیجوں کے استعمال سے مقامی بیج اور روایتی فصلیں ناپید ہو رہی ہیں، جس سے حیاتیاتی تنوع کو خطرہ لاحق ہے۔
توازن اور مستقبل کی ضرورت:
اگرچہ جدید زرعی ٹیکنالوجی نے خوراک کی پیداوار میں انقلاب برپا کیا ہے، لیکن اس کے منفی اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم متوازن حکمتِ عملی اختیار کریں۔ کیمیائی کھادوں اور اسپرے کے بجائے نامیاتی زراعت کو فروغ دیا جائے، پانی کے جدید اور مؤثر نظام اپنائے جائیں، اور چھوٹے کسانوں کو حکومتی سطح پر مالی و فنی معاونت فراہم کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر آگاہی مہمات بھی چلائی جائیں تاکہ لوگ صحت مند اور محفوظ خوراک کو ترجیح دیں۔
نتیجہ:
نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ جدید زرعی ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی میں خوراک کی فراہمی اور معیار کو بہتر بنانے میں
اہم کردار ادا کیا ہے۔
تاہم اس کے منفی اثرات جیسے ماحولیاتی آلودگی، صحت کے مسائل اور چھوٹے کسانوں کی مشکلات کو نظر انداز نہیں کیا جا
سکتا۔
اگر ٹیکنالوجی کو اعتدال کے ساتھ، ماحول دوست پالیسیوں کے تحت استعمال کیا جائے تو یہ نہ صرف خوراک کی پیداوار کو
بڑھا سکتی ہے بلکہ ایک پائیدار زرعی نظام کو بھی جنم دے سکتی ہے۔
سوال نمبر 5:
انتہائی تیزی سے بڑھتی ہوئی افرادی قوت کے لیے کس طرح روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں؟
تعارف:
دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی تیزی سے بڑھتی ہوئی افرادی قوت کا سامنا ہے۔
آبادی میں مسلسل اضافہ ایک طرف محنتی، ذہین اور باصلاحیت نوجوانوں کی شکل میں ایک قیمتی سرمایہ فراہم کرتا ہے تو
دوسری طرف یہ ایک بڑا چیلنج بھی ہے۔
اگر افرادی قوت کے لیے مناسب روزگار فراہم نہ ہو تو غربت، بے روزگاری، جرائم اور معاشرتی مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ بڑھتی ہوئی افرادی قوت کو مؤثر طریقے سے روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے اہم طریقے:
1۔ صنعتی ترقی کو فروغ دینا:
- نئی صنعتوں کا قیام روزگار کے مواقع بڑھانے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔
- چھوٹی اور درمیانی صنعتوں (SMEs) کو حکومتی مراعات فراہم کر کے نوجوانوں کے لیے زیادہ روزگار پیدا کیا جا سکتا ہے۔
- خاص طور پر ٹیکسٹائل، فوڈ پروسیسنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کنسٹرکشن کے شعبے بڑی تعداد میں روزگار فراہم کر سکتے ہیں۔
2۔ زرعی شعبے کی ترقی:
- پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ جدید زرعی ٹیکنالوجی اور زرعی صنعتوں (ایگرو انڈسٹری) کے فروغ سے دیہی آبادی کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں۔
- زرعی پیداوار پر مبنی چھوٹی صنعتیں جیسے ڈیری فارمنگ، پولٹری، اور فروٹ پروسیسنگ نوجوانوں کے لیے منافع بخش کاروبار ثابت ہو سکتی ہیں۔
3۔ فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کا فروغ:
- ہنر مند افراد کو دنیا بھر میں روزگار کے بہتر مواقع ملتے ہیں۔
- فنی اداروں کے قیام اور موجودہ اداروں کی بہتری سے نوجوانوں کو مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق ہنر سکھائے جا سکتے ہیں۔
- انفارمیشن ٹیکنالوجی، مکینیکل، الیکٹریکل، سول ورکس اور ہیلتھ ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کر کے لاکھوں نوجوان خود کفیل ہو سکتے ہیں۔
4۔ کاروبار اور اسٹارٹ اپس کو فروغ دینا:
- حکومت کو نوجوانوں کے لیے بلاسود یا آسان شرائط پر قرضے فراہم کرنے چاہییں تاکہ وہ اپنا کاروبار شروع کر سکیں۔
- نوجوانوں میں کاروباری سوچ پیدا کر کے چھوٹے کاروباروں کو روزگار کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔
- انٹرنیٹ اور ای-کامرس کی بدولت آج نوجوان گھر بیٹھے بھی کاروبار کر سکتے ہیں۔
5۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور فری لانسنگ:
- ڈیجیٹل دنیا نے نوجوانوں کے لیے لامحدود مواقع فراہم کیے ہیں۔
- پاکستانی نوجوان فری لانسنگ کے ذریعے دنیا بھر سے آن لائن کام حاصل کر کے اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
- آئی ٹی انڈسٹری کی سرپرستی سے لاکھوں نئی نوکریاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔
6۔ بیرون ملک روزگار کے مواقع:
- حکومت نوجوانوں کو بیرون ملک روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے مختلف ممالک کے ساتھ معاہدے کر سکتی ہے۔
- ہنر مند اور نیم ہنر مند مزدور مشرق وسطیٰ، یورپ اور دیگر ممالک میں بڑی تعداد میں بھیجے جا سکتے ہیں، جس سے زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا۔
7۔ سیاحت کے شعبے کی ترقی:
- پاکستان سیاحت کے بے شمار مواقع رکھتا ہے۔
- اگر سیاحت کے شعبے کو جدید سہولیات کے ساتھ ترقی دی جائے تو لاکھوں نوجوانوں کے لیے روزگار کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
8۔ سرکاری اور نجی شعبے میں سرمایہ کاری:
- بڑی سرمایہ کاری منصوبے جیسے ڈیمز، موٹرویز، انرجی پروجیکٹس اور ہاؤسنگ سکیمیں لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کر سکتی ہیں۔
- نجی شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانے سے بھی روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
نتیجہ:
نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی افرادی قوت ایک چیلنج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک موقع بھی ہے۔ اگر حکومت اور نجی شعبہ مل کر تعلیم، صنعت، زراعت، ٹیکنالوجی، اور کاروبار کے مواقع پیدا کریں تو نوجوان بوجھ بننے کے بجائے ملکی ترقی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ درست منصوبہ بندی اور وسائل کے بہتر استعمال سے نہ صرف بے روزگاری ختم کی جا سکتی ہے بلکہ پاکستان ایک مضبوط معیشت کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھر سکتا ہے۔
سوال نمبر 6:
مندر جہ ذیل پر مختصر نوٹ تحریر کریں:
ا۔ قدرتی وسائل کی مختلف اقسام
ب۔ پاکستان میں موجودہ غذائی صورت حال
ج۔ بہتر معیار زندگی کے لیے تعلیم کی اہمیت و ضرورت
تعارف:
کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی میں تین عناصر بنیادی کردار ادا کرتے ہیں: قدرتی وسائل، خوراک کی دستیابی، اور تعلیم
کا فروغ۔
یہ تینوں عوامل نہ صرف افراد کی انفرادی زندگی کو متاثر کرتے ہیں بلکہ اجتماعی طور پر ایک مضبوط اور مستحکم معاشرے
کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ان پہلوؤں پر تفصیلی غور و فکر اور عملی اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔
ا۔ قدرتی وسائل کی مختلف اقسام:
قدرتی وسائل وہ عطیات ہیں جو ہمیں قدرت کی طرف سے بغیر کسی انسانی محنت کے میسر آتے ہیں۔ یہ وسائل کسی بھی ملک کی معیشت کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی مختلف اقسام درج ذیل ہیں:
- زمینی وسائل: زرخیز زمین، چراگاہیں، جنگلات اور پہاڑ شامل ہیں۔ پاکستان کے پاس لاکھوں ایکڑ زرعی زمین موجود ہے جو گندم، چاول، کپاس اور گنے کی پیداوار کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
- آبی وسائل: دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا پاکستان کی معیشت کی شہ رگ ہیں۔ زیرِ زمین پانی اور بارش بھی آبی وسائل کا حصہ ہیں۔
- معدنی وسائل: تیل، گیس، نمک، کوئلہ، تانبہ اور سونا پاکستان کی زمین سے نکلنے والے قیمتی معدنیات ہیں۔ ریکوڈک اور تھر کول دنیا میں مشہور ہیں۔
- توانائی کے وسائل: ہوا، پانی اور سورج سے توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں پن بجلی اور شمسی توانائی کی بڑی صلاحیت موجود ہے۔
- جنگلاتی وسائل: لکڑی، جڑی بوٹیاں اور حیوانی چرند پرند، جو نہ صرف صنعتوں بلکہ انسانی زندگی کے لیے بھی اہم ہیں۔
یہ تمام وسائل اگر درست منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کیے جائیں تو پاکستان معاشی خود کفالت اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
ب۔ پاکستان میں موجودہ غذائی صورت حال:
پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود غذائی قلت اور عدم تحفظِ خوراک جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ ملک میں غذائی صورت حال کو سمجھنے کے لیے چند نکات درج ذیل ہیں:
- اکثریت عوام متوازن خوراک سے محروم ہے اور غذائی اجناس کی قلت کی وجہ سے بچے اور خواتین خاص طور پر متاثر ہوتے ہیں۔
- غذائی قلت کی وجہ سے بچوں میں نشوونما کی کمی، خون کی کمی (Anemia) اور بیماریوں میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔
- زرعی پیداوار میں اضافہ تو ہو رہا ہے لیکن آبادی کی تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی شرح اس پیداوار کو ناکافی بنا دیتی ہے۔
- غذائی اجناس کے ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی نے عام آدمی کے لیے خوراک کی دستیابی کو مشکل بنا دیا ہے۔
- عالمی اداروں کے مطابق پاکستان کی ایک بڑی آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے، خاص طور پر دیہی علاقے اس مسئلے سے زیادہ متاثر ہیں۔
اس مسئلے کے حل کے لیے جدید زرعی ٹیکنالوجی، کھاد اور بیجوں کے معیاری استعمال، پانی کے مؤثر انتظام اور خوراک کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ضروری ہے۔
ج۔ بہتر معیار زندگی کے لیے تعلیم کی اہمیت و ضرورت:
تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی اور معیارِ زندگی کو بلند کرنے کے لیے سب سے بنیادی ستون ہے۔ اس کی اہمیت درج ذیل انداز میں بیان کی جا سکتی ہے:
- معاشی ترقی: تعلیم یافتہ افراد بہتر ہنر اور روزگار حاصل کرتے ہیں، جس سے ملک کی مجموعی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔
- سماجی شعور: تعلیم افراد کو اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ کرتی ہے اور معاشرتی انصاف کو فروغ دیتی ہے۔
- صحت اور فلاح: تعلیم یافتہ افراد صحت مند طرزِ زندگی اپناتے ہیں اور اپنے بچوں کی بہتر تربیت کرتے ہیں۔
- سائنسی و تکنیکی ترقی: اعلیٰ تعلیم اور تحقیق جدید ٹیکنالوجی کے فروغ کا ذریعہ ہے، جو ترقی یافتہ معاشروں کی بنیاد بنتی ہے۔
- قومی یکجہتی: تعلیم سے برداشت، رواداری اور قومی ہم آہنگی پروان چڑھتی ہے۔
بہتر معیار زندگی صرف اس وقت ممکن ہے جب تعلیم کو ہر طبقے اور علاقے تک پہنچایا جائے اور جدید نصاب کے ساتھ عملی تربیت بھی فراہم کی جائے۔
نتیجہ:
ان تینوں پہلوؤں — قدرتی وسائل کا مؤثر استعمال، متوازن غذائی صورت حال اور تعلیم کا فروغ — کو ایک ساتھ سامنے رکھا
جائے تو پاکستان اپنی آبادی کو بہتر معیار زندگی فراہم کر سکتا ہے۔
یہ اقدامات نہ صرف انفرادی خوشحالی بلکہ قومی ترقی اور عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان کو بھی مضبوط بنائیں گے۔
سوال نمبر 7:
وہ کون سے عوامل ہیں جو ترقی پذیر ممالک میں ترقیاتی منصوبوں کو زیادہ کامیاب نہیں ہونے دیتے؟ وضاحت کریں۔
تعارف:
ترقیاتی منصوبے کسی بھی ملک کی معاشی، سماجی اور سائنسی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں یہی منصوبے معیشت کو مضبوط اور عوام کو سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔
لیکن ترقی پذیر ممالک، خصوصاً پاکستان جیسے ممالک میں اکثر یہ منصوبے اپنی اصل کامیابی حاصل نہیں کر پاتے۔
اس کی متعدد وجوہات ہیں جنہیں سمجھنا اور دور کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ترقی کے سفر کو تیز رفتار اور
پائیدار بنایا جا سکے۔
ترقیاتی منصوبوں کی ناکامی کی وجوہات:
1۔ بدعنوانی اور اقربا پروری:
ترقی پذیر ممالک میں سب سے بڑی رکاوٹ بدعنوانی ہے۔ منصوبوں کے لیے مختص بجٹ کا بڑا حصہ رشوت، کمیشن اور اقربا پروری کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے منصوبے ادھورے رہ جاتے ہیں یا ان کا معیار انتہائی ناقص ہوتا ہے۔
2۔ ناقص منصوبہ بندی:
ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی کے لیے مؤثر اور حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی ضروری ہے۔ مگر اکثر ترقی پذیر ممالک میں منصوبے زمینی حقائق کو مدنظر رکھے بغیر تیار کیے جاتے ہیں، جس کے باعث یہ وقت اور وسائل دونوں کا ضیاع ثابت ہوتے ہیں۔
3۔ مالی وسائل کی کمی:
ترقی پذیر ممالک کو اکثر بجٹ خسارے اور بیرونی قرضوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے مستقل اور وافر سرمایہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبے تاخیر کا شکار ہوتے ہیں یا مکمل نہیں ہو پاتے۔
4۔ سیاسی عدم استحکام:
بار بار کی حکومتی تبدیلیاں اور سیاسی عدم استحکام ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔ ہر نئی حکومت پچھلی حکومت کے منصوبوں کو نظرانداز یا ختم کر دیتی ہے، جس کے نتیجے میں وسائل ضائع ہو جاتے ہیں اور منصوبے ادھورے رہ جاتے ہیں۔
5۔ تکنیکی اور سائنسی مہارت کی کمی:
ترقی پذیر ممالک میں اکثر افرادی قوت کو جدید سائنسی اور تکنیکی مہارت حاصل نہیں ہوتی۔ اس کمی کی وجہ سے منصوبے جدید تقاضوں کے مطابق مکمل نہیں ہو پاتے اور بیرونی ماہرین پر انحصار بڑھ جاتا ہے۔
6۔ آبادی میں تیز رفتار اضافہ:
تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ترقیاتی منصوبوں کے ثمرات کو زائل کر دیتی ہے۔ جس منصوبے کو دس لاکھ افراد کے لیے بنایا جاتا ہے، آبادی بڑھنے سے وہ جلد ہی ناکافی ثابت ہو جاتا ہے۔
7۔ ناقص نگرانی اور احتساب کی کمی:
منصوبوں پر عملدرآمد کے دوران مؤثر نگرانی کا فقدان رہتا ہے۔ احتسابی نظام کمزور ہونے کی وجہ سے بدعنوان عناصر کو سزا نہیں ملتی اور عوامی وسائل ضائع ہو جاتے ہیں۔
8۔ غیر ملکی قرضوں پر انحصار:
ترقی پذیر ممالک اکثر ترقیاتی منصوبوں کے لیے غیر ملکی قرضوں پر انحصار کرتے ہیں۔ ان قرضوں کی سخت شرائط اور سود کی ادائیگیاں منصوبوں کی کامیابی کو متاثر کرتی ہیں اور ترقی کے بجائے مزید معاشی مشکلات پیدا کرتی ہیں۔
9۔ عوامی شمولیت کی کمی:
ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی میں عوامی شرکت اور شعور بہت اہم ہے۔ لیکن ترقی پذیر ممالک میں عوامی ضروریات اور رائے کو مدنظر نہیں رکھا جاتا، نتیجتاً منصوبے عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترتے۔
نتیجہ:
ترقی پذیر ممالک میں ترقیاتی منصوبوں کی ناکامی کی بنیادی وجوہات بدعنوانی، ناقص منصوبہ بندی، مالی وسائل کی کمی،
سیاسی عدم استحکام اور عوامی شمولیت کا فقدان ہیں۔
اگر ان مسائل کو ایمانداری، شفافیت، مؤثر منصوبہ بندی اور احتسابی نظام کے ذریعے دور کیا جائے تو ترقیاتی منصوبے
کامیاب ہو سکتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں نہ صرف عوام کو سہولتیں میسر آئیں گی بلکہ ملک معاشی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر بھی گامزن ہو گا۔
سوال نمبر 8:
ترقی پذیر ممالک خصوصاً پاکستان میں انسانی وسائل اور روزگار کی صورت حال بیان کریں۔
تعارف:
انسانی وسائل کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ محض آبادی نہیں بلکہ افراد کی تعلیم، صحت،
صلاحیتوں اور پیداواری قوت پر مشتمل سرمایہ ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں جہاں وسائل محدود اور چیلنجز زیادہ ہوتے ہیں، وہاں انسانی وسائل کا مؤثر استعمال اور روزگار کے
مواقع پیدا کرنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی کی کثرت اور نوجوانوں کی بڑی تعداد ایک طرف مواقع فراہم کرتی ہے تو
دوسری طرف مسائل بھی پیدا کرتی ہے۔
انسانی وسائل کی اہمیت:
انسانی وسائل وہ صلاحیتیں اور قوتیں ہیں جو کسی قوم کے پاس موجود انسانی سرمائے کی شکل میں پائی جاتی ہیں۔ تعلیم یافتہ، ہنرمند اور صحت مند افراد قومی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر یہ وسائل بہتر منصوبہ بندی اور مواقع کے ساتھ بروئے کار نہ لائے جائیں تو یہ بوجھ بن جاتے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں انسانی وسائل کی صورت حال:
- تعلیم کی کمی اور شرح خواندگی کا کم ہونا۔
- ہنرمند افراد کی قلت اور تربیتی اداروں کی محدودیت۔
- صحت کی سہولیات کا فقدان جس سے پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
- دیہی و شہری علاقوں میں سہولتوں کا فرق اور غیر مساوی مواقع۔
- بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ وسائل کا دباؤ۔
پاکستان میں انسانی وسائل کی صورت حال:
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں نوجوانوں کی آبادی 60 فیصد سے زائد ہے۔ یہ نوجوان ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کے لیے تعلیم، تربیت اور روزگار کے متوازن مواقع فراہم نہیں کیے جا سکے۔
اہم مسائل:
- شرح خواندگی: پاکستان میں شرح خواندگی تقریباً 60 فیصد کے قریب ہے جو ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
- ہنرمندی کی کمی: فنی و پیشہ ورانہ ادارے محدود ہیں جس کی وجہ سے افرادی قوت زیادہ تر غیر ہنر مند ہے۔
- بے روزگاری: آبادی میں تیزی سے اضافہ اور معیشت کی محدود رفتار کے باعث بے روزگاری ایک بڑا مسئلہ ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی ملازمت سے محروم رہتی ہے۔
- صحت کی صورتحال: کمزور صحت کے باعث افراد اپنی پیداواری صلاحیت کا مکمل اظہار نہیں کر پاتے۔
- دماغی فرار: ہنرمند اور تعلیم یافتہ افراد بہتر مواقع کے لیے بیرون ملک ہجرت کر جاتے ہیں۔
روزگار کی صورت حال:
پاکستان میں روزگار کے مواقع زیادہ تر زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں میں پائے جاتے ہیں۔ تاہم معیشت کی سست رفتاری اور صنعتوں کی محدود ترقی کی وجہ سے روزگار کی فراہمی میں مشکلات درپیش ہیں۔
اہم پہلو:
- زراعت: ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن جدید ٹیکنالوجی کی کمی کی وجہ سے روزگار کے مواقع محدود ہیں۔
- صنعت: صنعتوں کی رفتار سست ہے اور بجلی و گیس کے بحران نے مزید مسائل پیدا کیے ہیں۔
- خدمات: بینکنگ، ٹیلی کام، آئی ٹی اور دیگر شعبے روزگار پیدا کر رہے ہیں لیکن ان کی رفتار آبادی کی ضروریات کو پورا نہیں کرتی۔
- غیر رسمی شعبہ: بڑی تعداد میں افراد چھوٹے کاروبار اور غیر رسمی شعبوں میں مصروف ہیں جہاں آمدنی اور سہولیات کم ہیں۔
حل اور تجاویز:
- تعلیم کے معیار اور دستیابی کو بہتر بنایا جائے تاکہ نوجوان جدید تقاضوں کے مطابق تیار ہوں۔
- فنی اور پیشہ ورانہ ادارے قائم کیے جائیں تاکہ ہنرمند افراد کی تعداد بڑھے۔
- صحت کی سہولیات بہتر کر کے افرادی قوت کی پیداواری صلاحیت کو بڑھایا جائے۔
- نئے صنعتی زون اور چھوٹے کاروباروں کو فروغ دیا جائے تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔
- زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی متعارف کرائی جائے تاکہ کسانوں کو زیادہ مواقع اور بہتر آمدنی ملے۔
- بیرون ملک جانے والے ہنرمند افراد کے لیے سہولیات فراہم کر کے انہیں ملک میں ہی کام کرنے پر راغب کیا جائے۔
نتیجہ:
پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں انسانی وسائل اور روزگار کی صورت حال ایک اہم چیلنج ہے۔ اگر ان وسائل کو درست سمت
میں استعمال کیا جائے، تعلیم اور تربیت پر سرمایہ کاری کی جائے اور معیشت کو ترقی دی جائے تو یہی انسانی وسائل ملک
کی سب سے بڑی طاقت ثابت ہو سکتے ہیں۔
نوجوانوں کو روزگار اور مواقع فراہم کر کے پاکستان نہ صرف اپنے داخلی مسائل حل کر سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک
مضبوط اور خوشحال ملک کے طور پر ابھر سکتا ہے۔
سوال نمبر 9:
وہ کون سے عوامل ہیں جو پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟
تعارف:
پاکستان ایک قدرتی وسائل سے مالا مال اور نوجوان آبادی رکھنے والا ملک ہے۔ اس کے باوجود یہ ترقی یافتہ ممالک کی صف
میں شامل نہیں ہو سکا۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قومی ترقی کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ یہ رکاوٹیں معاشی، سیاسی، سماجی اور انتظامی
نوعیت کی ہیں۔
ان مسائل کو حل کیے بغیر ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی ممکن نہیں۔
پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے عوامل:
1۔ سیاسی عدم استحکام:
- پاکستان میں حکومتوں کی بار بار تبدیلی اور غیر مستحکم سیاسی نظام نے ترقی کے تسلسل کو متاثر کیا۔
- سیاسی جماعتوں میں باہمی اختلافات اور ذاتی مفادات نے قومی مفاد کو پس پشت ڈالا۔
- پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونے کے باعث ترقیاتی منصوبے ادھورے رہ جاتے ہیں۔
2۔ بدعنوانی (کرپشن):
- کرپشن پاکستان کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو ہر ادارے کو متاثر کر رہی ہے۔
- ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص بجٹ کا بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔
- عام آدمی کی سہولیات متاثر ہوتی ہیں اور عوام کا اعتماد اداروں سے اٹھ جاتا ہے۔
3۔ کمزور تعلیمی نظام:
- پاکستان میں شرح خواندگی دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
- تعلیمی معیار بہتر نہ ہونے کے باعث نوجوان جدید تقاضوں کے مطابق ہنر حاصل نہیں کر پاتے۔
- تحقیق اور اختراع پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے جس سے ترقی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔
4۔ توانائی کا بحران:
- بجلی اور گیس کی قلت نے صنعتوں اور زراعت کو شدید نقصان پہنچایا۔
- کارخانوں کی بندش کے باعث روزگار کے مواقع کم ہو گئے۔
- توانائی کے بحران نے ملکی برآمدات کو متاثر کیا اور معیشت کو کمزور بنایا۔
5۔ آبادی میں تیزی سے اضافہ:
- پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
- وسائل کی کمی اور آبادی میں تیز اضافہ ترقی کے عمل کو مشکل بنا رہا ہے۔
- تعلیم، صحت اور روزگار کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
6۔ معاشی مسائل:
- پاکستان کی معیشت زیادہ تر قرضوں پر انحصار کرتی ہے۔
- برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہونے کے باعث تجارتی خسارہ بڑھتا ہے۔
- مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔
7۔ دہشت گردی اور امن و امان کی صورتحال:
- گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی نے ملک کو شدید نقصان پہنچایا۔
- غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آئی اور معیشت متاثر ہوئی۔
- عوام میں خوف و ہراس پیدا ہوا اور ترقیاتی سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔
8۔ عدالتی اور انتظامی مسائل:
- انصاف کی فراہمی میں تاخیر نے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔
- انتظامیہ میں نااہلی اور غیر مؤثر پالیسیوں نے ترقی کی رفتار سست کی۔
9۔ زرعی شعبے میں پسماندگی:
- زراعت ملکی معیشت کا بنیادی ستون ہے لیکن جدید ٹیکنالوجی کی کمی اور پانی کے مسائل نے اسے متاثر کیا۔
- کسانوں کو مناسب سہولتیں اور معاوضہ نہیں ملتا جس سے ان کی حالت بہتر نہیں ہو سکی۔
حل اور تجاویز:
- سیاسی استحکام کے لیے جمہوری نظام کو مضبوط بنایا جائے اور پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھا جائے۔
- کرپشن کے خاتمے کے لیے سخت قوانین نافذ کیے جائیں اور شفاف احتساب ہو۔
- تعلیم کے معیار کو بہتر بنایا جائے اور نوجوانوں کو جدید ہنر فراہم کیے جائیں۔
- توانائی کے نئے ذرائع تلاش کیے جائیں جیسے شمسی اور ہوائی توانائی۔
- آبادی پر قابو پانے کے لیے منصوبہ بندی اور آگاہی مہم چلائی جائے۔
- صنعت و زراعت کے شعبوں میں جدید ٹیکنالوجی متعارف کرائی جائے۔
- قرضوں پر انحصار کم کر کے اپنی برآمدات بڑھائی جائیں۔
- امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنا کر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا جائے۔
نتیجہ:
پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں کئی جہتوں پر مشتمل ہیں۔ اگر سیاسی استحکام، شفافیت، بہتر تعلیمی نظام اور
مضبوط معیشت پر توجہ دی جائے تو یہ رکاوٹیں دور ہو سکتی ہیں۔
انسانی وسائل کو مثبت انداز میں استعمال کر کے پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔
سوال نمبر 10:
قدرتی وسائل کی مختلف اقسام بیان کریں۔ نیز ان وسائل کی ملکی صورت حال بھی واضح کریں۔
تعارف:
قدرتی وسائل کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔ یہ وہ عطیات ہیں جو انسان کو قدرت کی طرف سے
بلا معاوضہ حاصل ہوتے ہیں اور جن کے بغیر انسانی زندگی کا تصور ممکن نہیں۔
ان وسائل میں زمین، پانی، جنگلات، معدنیات، جانور، توانائی کے ذرائع، اور آب و ہوا شامل ہیں۔
قدرتی وسائل انسانی سماج کی معیشت، زراعت، صنعت اور روزمرہ زندگی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
قدرتی وسائل کی اقسام:
قدرتی وسائل کو مختلف پہلوؤں سے تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ بنیادی طور پر انہیں درج ذیل اقسام میں بیان کیا جاتا ہے:
1۔ زمینی وسائل:
- زمین قدرت کا سب سے اہم اور بنیادی ذریعہ ہے۔
- یہ زراعت، رہائش، صنعت، اور بنیادی ڈھانچے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔
- پاکستان کی زمین زیادہ تر زرخیز ہے اور گندم، کپاس، گنا اور چاول کی پیداوار میں دنیا بھر میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔
- تاہم زمین کی غیر متوازن تقسیم، غیر معیاری کاشتکاری اور پانی کی کمی اس کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے۔
2۔ آبی وسائل:
- پانی انسانی بقا کے لئے ناگزیر ہے۔
- پاکستان میں دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کا جال آبی وسائل کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
- نہری نظام دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام کہلاتا ہے۔
- تاہم پانی کی کمی، آلودگی اور ڈیمز کی کمی ملکی معیشت اور زراعت کو متاثر کر رہی ہے۔
3۔ جنگلاتی وسائل:
- جنگلات ماحولیاتی توازن، آکسیجن کی پیداوار اور لکڑی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔
- پاکستان میں جنگلات کا رقبہ کل زمین کے صرف 4 سے 5 فیصد پر مشتمل ہے جو کہ عالمی معیار سے بہت کم ہے۔
- جنگلات کی بے تحاشا کٹائی ماحولیاتی مسائل جیسے سیلاب، زمین کا کٹاؤ اور موسمی تغیرات کو جنم دے رہی ہے۔
4۔ معدنی وسائل:
- معدنی وسائل میں کوئلہ، نمک، تیل، گیس، تانبہ، سونا اور دیگر قیمتی دھاتیں شامل ہیں۔
- پاکستان کے علاقے ریکوڈک میں دنیا کے بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔
- سندھ میں تھر کول دنیا کے بڑے کوئلے کے ذخائر میں شمار ہوتا ہے۔
- ان وسائل کا درست استعمال اور جدید ٹیکنالوجی کی کمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
5۔ توانائی کے وسائل:
- توانائی ملکی ترقی کے لئے ناگزیر ہے۔
- پاکستان میں پن بجلی، تیل، گیس اور ایٹمی توانائی کے ذرائع موجود ہیں۔
- ہوا اور شمسی توانائی کے ذخائر بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں لیکن ان سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔
- توانائی کی قلت ملکی صنعت اور معیشت کو سخت متاثر کر رہی ہے۔
6۔ حیوانی وسائل:
- مویشی اور چرند پرند انسانی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
- پاکستان میں دودھ، گوشت، اون اور چمڑے کی پیداوار کے لئے مویشی پالے جاتے ہیں۔
- یہ وسائل دیہی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
7۔ ماحولیاتی وسائل:
- آب و ہوا، بارش، سورج کی روشنی اور ہوا بھی قدرتی وسائل میں شمار ہوتے ہیں۔
- پاکستان کے مختلف علاقے زرعی پیداوار کے لحاظ سے مختلف خصوصیات رکھتے ہیں۔
- تاہم ماحولیاتی آلودگی اور موسمی تبدیلیاں ان وسائل پر دباؤ ڈال رہی ہیں۔
پاکستان میں قدرتی وسائل کی موجودہ صورت حال:
پاکستان قدرتی وسائل کے اعتبار سے دنیا کے چند خوش قسمت ممالک میں شامل ہے لیکن ان وسائل سے مطلوبہ فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ اس کی بڑی وجوہات میں بد انتظامی، کرپشن، جدید ٹیکنالوجی کی کمی، ماہر افرادی قوت کی قلت، اور پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونا شامل ہیں۔
- زرعی پیداوار پانی کی کمی اور پرانی کاشتکاری کے طریقوں کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔
- توانائی کے وسائل ہونے کے باوجود بجلی کی کمی ملک کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔
- معدنی وسائل کے باوجود ان پر انحصار کم ہے اور زیادہ تر درآمدات پر انحصار کیا جاتا ہے۔
- جنگلات کی کمی ماحولیاتی خطرات کو بڑھا رہی ہے۔
نتیجہ:
نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے مگر ان کے صحیح استعمال میں ناکامی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر وسائل کے درست استعمال، پائیدار منصوبہ بندی، جدید ٹیکنالوجی اور مؤثر حکمت عملی اپنائی جائے تو پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔ وسائل کی حفاظت اور ان کا درست استعمال نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی ضروری ہے۔
سوال نمبر 11:
مندر جہ ذیل پر نوٹ لکھیں:
- ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی اہمیت
- بڑھتی ہوئی آبادی اور متعلقہ مسائل
- زرعی معیشت اور بڑے کنبے
- شہر بندی کی ضرورت
1۔ ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی اہمیت:
موجودہ دور کو سائنسی اور ٹیکنالوجی کا دور کہا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کس حد تک جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے اپنی معیشت، صنعت اور تعلیم کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مضبوط بنایا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ ترقی یافتہ ممالک سے ٹیکنالوجی ٹرانسفر کریں تاکہ وہ اپنی صنعتوں، زراعت اور تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کر سکیں۔
- ٹیکنالوجی ٹرانسفر سے پیداواری عمل تیز اور معیاری ہو جاتا ہے۔
- زراعت میں جدید مشینری، بیج اور کھادوں کا استعمال فصلوں کی پیداوار بڑھاتا ہے۔
- صنعتی شعبہ عالمی معیار پر آ جاتا ہے اور برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے۔
- تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں نئی ایجادات اور اختراعات ممکن ہوتی ہیں۔
نتیجتاً کہا جا سکتا ہے کہ ٹیکنالوجی ٹرانسفر ترقی پذیر ملکوں کے لیے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔
2۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور متعلقہ مسائل:
آبادی میں اضافہ ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن ترقی پذیر ممالک خصوصاً پاکستان میں یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی وسائل پر دباؤ ڈالتی ہے اور معیشت کو متاثر کرتی ہے۔
- تعلیمی ادارے، صحت کی سہولیات اور رہائش کی کمی واقع ہوتی ہے۔
- بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔
- خوراک اور پانی جیسے بنیادی وسائل پر شدید دباؤ پڑتا ہے۔
- ماحولیاتی مسائل جیسے آلودگی اور جنگلات کی کٹائی میں اضافہ ہوتا ہے۔
آبادی کے بے تحاشا اضافے کے باعث ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو ترقی کی رفتار مزید سست ہو جائے گی۔
3۔ زرعی معیشت اور بڑے کنبے:
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی معیشت کا بڑا حصہ زراعت پر منحصر ہے۔ دیہی علاقوں میں خاندان بڑے ہوتے ہیں جنہیں زرعی معیشت کے لیے ایک سہارا سمجھا جاتا ہے۔
- بڑے خاندان کھیتوں میں افرادی قوت فراہم کرتے ہیں۔
- دیہی علاقوں میں زیادہ افراد کا مقصد زیادہ کام اور پیداوار حاصل کرنا ہوتا ہے۔
- لیکن بڑے کنبے کے باعث وسائل کی تقسیم مشکل ہو جاتی ہے۔
- تعلیم اور صحت کی سہولیات بڑے خاندانوں کے لیے ناکافی ہو جاتی ہیں۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ زرعی معیشت میں بڑے خاندان وقتی فائدہ تو دیتے ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ سماجی اور معاشی مسائل کو جنم دیتے ہیں۔
4۔ شہر بندی کی ضرورت:
جدید دور میں شہر بندی (Urban Planning) کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے لازمی ہے۔ غیر منصوبہ بند شہروں میں مسائل بڑھتے ہیں جیسے ٹریفک کا دباؤ، آلودگی، کچی آبادیاں اور سہولیات کی کمی۔
- شہر بندی سے رہائش، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع بہتر ہو جاتے ہیں۔
- ٹرانسپورٹ اور بنیادی ڈھانچہ (Infrastructure) منظم انداز میں ترقی کرتا ہے۔
- ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے سبز علاقے اور پارکس بنائے جا سکتے ہیں۔
- صنعتوں اور تجارتی مراکز کے لیے مخصوص علاقے مختص کیے جا سکتے ہیں۔
اس لیے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے مؤثر شہر بندی ناگزیر ہے تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کو بہتر سہولیات فراہم کی جا سکیں اور ملک کی معیشت کو مضبوط بنایا جا سکے۔
مجموعی نتیجہ:
ان تمام نکات سے واضح ہوتا ہے کہ ٹیکنالوجی ٹرانسفر، آبادی کے مسائل کا حل، زرعی معیشت میں تبدیلی اور شہر بندی ملکی ترقی کے بنیادی عناصر ہیں۔ اگر ان شعبوں پر سنجیدہ توجہ دی جائے تو پاکستان اپنے وسائل کو بہتر طور پر استعمال کر کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔
سوال نمبر 12:
پاکستان میں کون کون سے تعلیمی مسائل قابل غور ہیں؟ ان کے حل کے لیے تجاویز دیں۔
تعارف:
تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی اور فلاح کا بنیادی ستون ہے۔ پاکستان میں تعلیم کو آئینی طور پر ہر شہری کا بنیادی حق
قرار دیا گیا ہے،
مگر بدقسمتی سے مختلف وجوہات کی بنا پر یہ شعبہ اپنی مطلوبہ ترقی حاصل نہ کر سکا۔
ملک میں تعلیمی مسائل کی ایک طویل فہرست موجود ہے جو قومی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
ان مسائل کی جڑیں معاشی، سماجی، سیاسی اور انتظامی کمزوریوں میں پیوست ہیں۔
پاکستان میں تعلیمی مسائل:
1۔ ناخواندگی کی بلند شرح:
- پاکستان میں شرح خواندگی اب بھی کئی ترقی پذیر ممالک سے کم ہے۔
- دیہی علاقوں میں اسکولوں کی کمی اور غربت کی وجہ سے بچے تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔
- خواتین کی تعلیم کے حوالے سے خاص طور پر شرح ناخواندگی بہت زیادہ ہے۔
2۔ تعلیمی بجٹ کی کمی:
- پاکستان میں تعلیم پر جی ڈی پی کا بہت کم حصہ خرچ کیا جاتا ہے۔
- بجٹ کی کمی کی وجہ سے اسکولوں میں بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں۔
- اساتذہ کی تربیت، لائبریریاں اور سائنسی لیبارٹریاں اکثر غیر فعال یا ناپید ہیں۔
3۔ معیاری تعلیم کی کمی:
- پاکستان میں تعلیمی اداروں میں معیار تعلیم یکساں نہیں ہے۔
- سرکاری اور نجی اداروں کے درمیان فرق نے معاشرتی ناہمواری کو بڑھایا ہے۔
- جدید سائنسی و تکنیکی تعلیم پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔
4۔ تعلیمی نصاب کے مسائل:
- نصاب میں یکسانیت کا فقدان ہے۔
- سرکاری، نجی اور دینی مدارس کے الگ الگ نصاب نے طبقاتی تفریق پیدا کر دی ہے۔
- نصاب جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں اور عملی زندگی کی ضروریات پوری نہیں کرتا۔
5۔ سہولیات کی کمی:
- کئی اسکولوں میں پینے کے صاف پانی، بجلی، فرنیچر اور واش روم جیسی سہولتیں موجود نہیں۔
- دیہی علاقوں میں لڑکیوں کے اسکول نہ ہونے یا دور دراز ہونے کی وجہ سے بچیاں تعلیم جاری نہیں رکھ سکتیں۔
6۔ اساتذہ کے مسائل:
- اساتذہ کی تعداد طلبہ کے مقابلے میں ناکافی ہے۔
- اساتذہ کی تربیت اور جدید تدریسی طریقہ کار سے آگاہی کی کمی تعلیمی معیار پر اثرانداز ہو رہی ہے۔
- بعض مقامات پر اساتذہ کی غیر حاضری بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
7۔ لسانی اور علاقائی رکاوٹیں:
- پاکستان میں مختلف زبانوں کے استعمال نے تعلیمی نظام کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔
- انگریزی اور اردو کے ساتھ علاقائی زبانوں کے فرق نے معیار اور تفہیم میں دشواریاں پیدا کی ہیں۔
8۔ غربت اور بچوں کی مزدوری:
- غربت کی وجہ سے کئی بچے تعلیم حاصل کرنے کے بجائے مزدوری پر مجبور ہیں۔
- والدین بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے گھریلو آمدنی بڑھانے کے لیے کام پر لگاتے ہیں۔
9۔ ہائر ایجوکیشن کے مسائل:
- جامعات میں تحقیق کا معیار عالمی معیار کے مطابق نہیں۔
- جدید ریسرچ کے مواقع، لیبارٹریز اور ڈیجیٹل لائبریریوں کی کمی نمایاں ہے۔
- طلبہ کے لیے عملی اور مارکیٹ بیسڈ تعلیم کا فقدان ہے۔
حل کے لیے تجاویز:
- تعلیم کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے اور اسے عملی اقدامات کے لیے استعمال کیا جائے۔
- نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ اور یکساں کیا جائے تاکہ طبقاتی فرق کم ہو۔
- اساتذہ کی تربیت اور جدید تدریسی مہارت پر خصوصی توجہ دی جائے۔
- دیہی علاقوں میں مزید اسکول قائم کیے جائیں اور موجودہ اسکولوں میں سہولتیں فراہم کی جائیں۔
- خواتین کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے وظائف اور خصوصی اسکیمیں متعارف کروائی جائیں۔
- غربت زدہ علاقوں میں بچوں کو مفت کتابیں، یونیفارم اور وظیفے فراہم کیے جائیں۔
- اعلیٰ تعلیم میں تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری کی جائے۔
- نئی تعلیمی پالیسی تسلسل اور شفافیت کے ساتھ نافذ کی جائے۔
نتیجہ:
نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے شعبے کو درپیش مسائل قومی ترقی کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں۔ اگر حکومت، عوام اور تعلیمی ادارے مل کر سنجیدہ کوشش کریں تو ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یکساں نصاب، جدید سہولتوں کی فراہمی، بجٹ میں اضافہ اور تعلیم کو اولین ترجیح دینے سے پاکستان کا تعلیمی نظام نہ صرف بہتر ہو سکتا ہے بلکہ ملک عالمی سطح پر ایک ترقی یافتہ اور مضبوط قوم کے طور پر ابھر سکتا ہے۔
سوال نمبر 13:
زرعی اور تکنیکی شعبوں میں بے روزگاری کی کیا کیفیت ہے؟ موجودہ صورت حال کے اہم اسباب کیا ہیں؟
تعارف:
بے روزگاری کسی بھی معاشرے کی سماجی اور معاشی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان جیسے زرعی ملک میں
جہاں ایک بڑی آبادی زراعت اور تکنیکی شعبوں سے منسلک ہے، وہاں بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح ایک نہایت سنجیدہ
مسئلہ ہے۔ زرعی اور تکنیکی شعبے دونوں قومی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں مگر جدید دور کے تقاضوں کے
مطابق ان شعبوں کی کارکردگی خاطر خواہ نہیں رہی جس کی وجہ سے لاکھوں افراد روزگار سے محروم ہیں۔
زرعی شعبے میں بے روزگاری کی کیفیت:
- پاکستان کی معیشت بنیادی طور پر زراعت پر انحصار کرتی ہے مگر کسان اور ہاری اپنی محنت کا مناسب معاوضہ حاصل کرنے سے محروم ہیں۔
- زمین کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے بیشتر کسان چھوٹے رقبوں پر کاشت کرتے ہیں جو معاشی لحاظ سے فائدہ مند نہیں۔
- مشینی کاشتکاری کے بڑھتے ہوئے رجحان نے مزدوروں کی ضرورت کو کم کر دیا ہے جس سے دیہی مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں۔
- پانی کی قلت اور پرانے زرعی طریقے پیداوار میں کمی کا سبب بن رہے ہیں جس سے کسان غربت اور بے روزگاری کا شکار ہیں۔
- زرعی اجناس کی قیمتوں میں غیر یقینی صورتحال اور منڈیوں میں بروقت رسائی نہ ہونے سے کسان معاشی مسائل میں گھر جاتے ہیں۔
تکنیکی شعبے میں بے روزگاری کی کیفیت:
- پاکستان میں فنی و تکنیکی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد روزگار کے مواقع نہ ملنے کی وجہ سے بے کار ہے۔
- تکنیکی اداروں میں فراہم کی جانے والی تربیت اکثر پرانے اور غیر جدید نصاب پر مشتمل ہے جو عالمی معیار سے مطابقت نہیں رکھتی۔
- صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کی کمی کی وجہ سے نئی فیکٹریاں اور کارخانے قائم نہیں ہو رہے، جس سے ہنر مند افراد روزگار سے محروم رہتے ہیں۔
- ٹیکنالوجی کے جدید رجحانات مثلاً آئی ٹی اور ڈیجیٹل اکنامی کے مواقع سے بھرپور استفادہ نہیں کیا جا رہا۔
- ملک میں ہنر مند افرادی قوت موجود ہے مگر وہ بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں جسے “برین ڈرین” کہا جاتا ہے۔
موجودہ صورت حال کے اہم اسباب:
1۔ زرعی شعبے میں:
- زمین کی غیر منصفانہ تقسیم اور جاگیردارانہ نظام۔
- زرعی تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی کمی۔
- نہری پانی کی قلت اور موسمی تغیرات۔
- کسانوں کے لیے قرضوں اور سبسڈی کی کمی۔
2۔ تکنیکی شعبے میں:
- فنی تعلیم میں جدید آلات اور مہارت کی کمی۔
- صنعتوں کا محدود ہونا اور نئے صنعتی زونز کا قیام نہ ہونا۔
- ریسرچ اور ترقی پر سرمایہ کاری کی کمی۔
- حکومتی پالیسیوں میں عدم تسلسل اور نجی شعبے کی محدود شمولیت۔
ممکنہ حل اور تجاویز:
- زرعی شعبے میں جدید مشینری اور تحقیق پر سرمایہ کاری بڑھائی جائے۔
- کسانوں کو آسان شرائط پر قرضے اور کھاد و بیج پر سبسڈی فراہم کی جائے۔
- زراعت سے منسلک صنعتوں مثلاً فوڈ پراسیسنگ کو فروغ دیا جائے تاکہ کسانوں کو براہ راست فائدہ ہو۔
- فنی و تکنیکی اداروں میں جدید نصاب اور بین الاقوامی معیار کے مطابق تربیت دی جائے۔
- صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کو بڑھا کر نئی فیکٹریاں اور انڈسٹریل زونز قائم کیے جائیں۔
- ڈیجیٹل اور آئی ٹی کے شعبے میں نوجوانوں کو تربیت اور آن لائن روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
نتیجہ:
نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ زرعی اور تکنیکی شعبے میں بے روزگاری پاکستان کی ترقی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگر حکومت جدید اقدامات کرے، سرمایہ کاری کو فروغ دے اور کسانوں و ہنر مند افراد کو سہولتیں فراہم کرے تو نہ صرف بے روزگاری کم ہوگی بلکہ قومی معیشت مضبوط ہوگی۔ زرعی اور تکنیکی ترقی ہی پاکستان کو پائیدار خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔
سوال نمبر 14:
زرعی مزدوری سے کیا مراد ہے؟ زرعی مزدوری کی مختلف صورتیں بیان کریں۔
تعارف:
زرعی مزدوری سے مراد کھیتوں اور کھلیانوں میں کسانوں، مزدوروں یا دیہاتی مزدور طبقے کی جانب سے کی جانے والی وہ
جسمانی محنت ہے
جس کا مقصد زراعتی پیداوار کو بڑھانا اور زمین سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہ محنت کھیتوں کی تیاری،
بیج بونے،
فصلوں کو پانی دینے، جڑی بوٹیاں صاف کرنے، کھاد ڈالنے، فصل کاٹنے اور اناج کو گاہنے تک مختلف صورتوں میں نظر آتی ہے۔
زرعی مزدوری نہ صرف کسان کی معیشت بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ پاکستان جیسا
زرعی ملک
انہی مزدوروں کی محنت کے باعث غذائی اجناس میں خود کفالت حاصل کرتا ہے۔
زرعی مزدوری کی اہمیت:
- زرعی مزدور زمین کی تیاری اور کاشت کے عمل کو ممکن بناتے ہیں۔
- یہ مزدور کسانوں کے ساتھ مل کر فصل کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور بروقت کام مکمل کرتے ہیں۔
- ملکی معیشت میں زرعی مزدوری کا بڑا حصہ ہے کیونکہ زرعی برآمدات مزدوروں کی محنت کے بغیر ممکن نہیں۔
- دیہی آبادی کی اکثریت زرعی مزدوری پر انحصار کرتی ہے اور اس سے ان کا روزگار وابستہ ہے۔
زرعی مزدوری کی مختلف صورتیں:
زرعی مزدوری مختلف شکلوں میں سامنے آتی ہے۔ ان میں سے اہم درج ذیل ہیں:
1۔ یومیہ اجرت پر مزدوری:
- اس صورت میں مزدور کھیتوں میں روزانہ اجرت کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔
- مزدور کو طے شدہ رقم روز کے اختتام پر دی جاتی ہے۔
- یہ نظام فصل کے مختلف مراحل میں زیادہ عام ہے جیسے زمین کی تیاری، گوڈی اور فصل کاٹنے کے وقت۔
2۔ فصل کے حصے پر مزدوری:
- بعض اوقات مزدور کو نقد اجرت دینے کے بجائے فصل میں سے ایک خاص حصہ دیا جاتا ہے۔
- یہ طریقہ خاص طور پر ان دیہی علاقوں میں رائج ہے جہاں نقد رقم کی کمی پائی جاتی ہے۔
- اس میں مزدور کی آمدنی فصل کی پیداوار پر منحصر ہوتی ہے۔
3۔ معاہدہ جاتی مزدوری:
- اس صورت میں مزدور اور زمین دار کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے۔
- مزدور ایک خاص مدت یا کام کے ایک خاص حصے کے لیے اجرت پر تیار ہوتا ہے۔
- مثال کے طور پر کھیت میں گندم کی کٹائی کا معاہدہ پہلے سے طے کر لیا جاتا ہے۔
4۔ موسمی مزدوری:
- زرعی مزدوری کا زیادہ تر کام فصلوں کے مخصوص موسم میں ہوتا ہے۔
- کاشت، کٹائی، چنائی، اور گاہنے کے دنوں میں دیہی علاقوں میں مزدوروں کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔
- یہ مزدوری عموماً چند ہفتوں یا مہینوں تک محدود رہتی ہے۔
5۔ مستقل مزدوری:
- کچھ بڑے زمیندار مستقل بنیادوں پر مزدور رکھتے ہیں۔
- ان مزدوروں کو ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے اور وہ سال بھر کھیتوں میں مختلف کام انجام دیتے ہیں۔
- یہ نظام ان علاقوں میں زیادہ عام ہے جہاں زرعی زمین وسیع پیمانے پر موجود ہو۔
6۔ گھریلو مزدوری:
- اکثر کسان اپنے گھر کے افراد کو زرعی مزدوری میں شامل کرتے ہیں۔
- خواتین اور بچے بھی بیج بونے، پودوں کی نگہداشت اور فصل چننے جیسے کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔
- یہ مزدوری نقد اجرت کے بغیر خاندان کی مدد کے طور پر کی جاتی ہے۔
پاکستان میں زرعی مزدوری کی موجودہ صورت حال:
پاکستان میں زرعی مزدوری کا زیادہ انحصار غریب دیہی مزدوروں پر ہے۔ اکثر مزدور کم اجرت، طویل اوقات کار اور جدید سہولیات سے محروم رہتے ہیں۔ مشینری کے بڑھتے ہوئے استعمال نے روایتی مزدوری کو متاثر کیا ہے مگر اس کے باوجود فصلوں کے کئی مراحل میں انسانی محنت ناگزیر ہے۔ زرعی مزدوروں کی کمزوری یہ ہے کہ ان کے پاس نہ زمین ہے اور نہ ہی مستقل روزگار، اسی وجہ سے وہ غربت کے دائرے سے باہر نہیں نکل پاتے۔
- زیادہ تر مزدور یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں جو مہنگائی کے لحاظ سے ناکافی ہوتی ہے۔
- فصل کے حصے پر مزدوری کے نظام میں مزدور ہمیشہ زمین دار کے رحم و کرم پر رہتا ہے۔
- سماجی تحفظ اور مراعات کی کمی مزدوروں کو مزید کمزور بناتی ہے۔
- اگر حکومت زرعی مزدوروں کے لیے بہتر پالیسی اور سہولیات مہیا کرے تو ان کی زندگی میں بہتری آ سکتی ہے۔
نتیجہ:
نتیجہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ زرعی مزدوری زراعت کی جان ہے۔ مزدور اپنی دن رات کی محنت سے زمین کو سنہری فصلوں میں بدلتے ہیں۔ ان کی محنت کے بغیر زراعت کا تصور ادھورا ہے۔ پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے زرعی مزدوروں کی فلاح و بہبود ناگزیر ہے۔ اگر مزدوروں کو منصفانہ اجرت، بہتر سہولیات اور سماجی تحفظ فراہم کیا جائے تو نہ صرف ان کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے بلکہ ملکی معیشت بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔
سوال نمبر 15:
دیہی ترقی سے کیا مراد ہے؟ نیز پاکستان کے دیہی مسائل کی فہرست مرتب کریں۔
تعارف:
دیہی ترقی سے مراد دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی سماجی، معاشی، تعلیمی اور ثقافتی حالت کو بہتر بنانا ہے۔
اس کے ذریعے کسانوں، مزدوروں اور دیہی برادریوں کو بہتر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی کے معیار کو
بلند کر سکیں۔
دیہی ترقی میں زراعت کی بہتری، بنیادی ڈھانچے کی فراہمی، تعلیم، صحت، روزگار، صاف پانی اور بجلی جیسے سہولیات کی
دستیابی شامل ہے۔
چونکہ پاکستان کی تقریباً 60 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے، اس لیے دیہی ترقی ملک کی مجموعی ترقی کے لیے
ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
دیہی ترقی کی اہمیت:
- دیہی ترقی کے ذریعے زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
- یہ شہروں کی طرف نقل مکانی کو کم کرتی ہے کیونکہ جب دیہی علاقوں میں سہولیات ہوں گی تو لوگ وہاں رہنے کو ترجیح دیں گے۔
- غربت اور بے روزگاری میں کمی آتی ہے اور معیار زندگی بہتر ہوتا ہے۔
- صحت اور تعلیم کی سہولیات فراہم ہونے سے انسانی وسائل بہتر ہوتے ہیں۔
- دیہی ترقی کے نتیجے میں ملکی معیشت میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔
پاکستان میں دیہی مسائل:
پاکستان کے دیہی علاقے مختلف مسائل کا شکار ہیں جو وہاں کے رہنے والوں کی ترقی اور خوشحالی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان مسائل کی فہرست درج ذیل ہے:
1۔ تعلیمی مسائل:
- دیہی علاقوں میں تعلیمی اداروں کی کمی ہے۔
- جہاں سکول موجود ہیں وہاں سہولیات اور اساتذہ کا فقدان ہے۔
- شرح خواندگی شہروں کی نسبت بہت کم ہے، خاص طور پر خواتین میں۔
2۔ صحت کے مسائل:
- دیہی علاقوں میں ہسپتال اور ڈسپنسریاں ناکافی ہیں۔
- ماہر ڈاکٹروں اور ادویات کی کمی ہے۔
- صحت کی بنیادی سہولیات تک رسائی مشکل ہے جس کے باعث شرح اموات زیادہ ہے۔
3۔ غربت اور بے روزگاری:
- زیادہ تر لوگ زراعت پر انحصار کرتے ہیں لیکن جدید زرعی طریقے نہ ہونے کے باعث پیداوار کم ہے۔
- زرعی مزدوروں کو مناسب اجرت نہیں ملتی۔
- کاروبار اور روزگار کے متبادل مواقع نہ ہونے کے باعث غربت عام ہے۔
4۔ بنیادی ڈھانچے کی کمی:
- دیہی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی اور ناکافی ہیں جس سے آمدورفت مشکل ہے۔
- صاف پانی اور بجلی کی کمی عام مسئلہ ہے۔
- ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کی سہولیات محدود ہیں۔
5۔ سماجی مسائل:
- دیہی علاقوں میں سماجی ناہمواری اور جاگیرداری نظام اب بھی موجود ہے۔
- غریب اور مزدور طبقہ استحصال کا شکار ہے۔
- خواتین کو تعلیم اور روزگار میں محدود مواقع ملتے ہیں۔
6۔ زرعی مسائل:
- زرعی زمین کی غیر منصفانہ تقسیم۔
- پانی کی قلت اور پرانے آبپاشی نظام کی خرابیاں۔
- جدید بیج، کھاد اور زرعی مشینری کی عدم دستیابی۔
7۔ ماحولیاتی مسائل:
- ماحولیاتی آلودگی اور پانی کے ذخائر کی کمی۔
- موسمی تغیرات اور سیلاب جیسی قدرتی آفات زرعی پیداوار کو متاثر کرتی ہیں۔
- جنگلات کی کمی اور زمین کا کٹاؤ بھی بڑے مسائل ہیں۔
پاکستان میں دیہی ترقی کی ضرورت:
پاکستان کے لیے دیہی ترقی ناگزیر ہے کیونکہ ملک کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔ دیہی علاقوں کی ترقی کے بغیر نہ غربت کم ہو سکتی ہے اور نہ ہی مجموعی ترقی ممکن ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ دیہی علاقوں میں تعلیم، صحت، روزگار، انفراسٹرکچر اور زرعی ٹیکنالوجی پر خصوصی توجہ دے تاکہ دیہی آبادی بھی شہروں کی طرح سہولیات سے فائدہ اٹھا سکے۔
نتیجہ:
نتیجہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ دیہی ترقی پاکستان کے خوشحال مستقبل کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر دیہی علاقوں کے مسائل حل کر لیے جائیں تو نہ صرف وہاں کے باسیوں کی زندگی میں بہتری آئے گی بلکہ ملکی معیشت بھی مضبوط ہوگی۔ لہٰذا حکومت اور سماجی اداروں کو مل کر دیہی ترقی کے منصوبوں پر کام کرنا چاہیے تاکہ شہروں اور دیہات کے درمیان فرق کم کیا جا سکے۔
سوال نمبر 16:
زرعی معیشت سے کیا مراد ہے؟ زرعی معیشت اور بڑے کتبے کے مابین تعلق واضح کریں۔
تعارف:
زرعی معیشت سے مراد وہ معیشت ہے جس کی بنیاد زراعت پر قائم ہو۔ یعنی جہاں زمین کی کاشت، اجناس کی پیداوار، مویشی
پروری،
باغبانی اور زراعت سے وابستہ صنعتیں ملک کی معاشی سرگرمیوں کا محور ہوں۔ زرعی معیشت انسانی تہذیب کی قدیم ترین بنیاد
ہے
اور آج بھی دنیا کے بیشتر ممالک بالخصوص ترقی پذیر ممالک کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے۔
پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے اس لیے زرعی معیشت اس کی معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
زرعی معیشت کی وضاحت:
- زراعت پر مبنی معیشت میں آبادی کی ایک بڑی تعداد براہ راست کھیتی باڑی اور مویشی بانی سے منسلک ہوتی ہے۔
- خوراک، کپڑا، چمڑا، تیل اور دیگر بنیادی ضروریات زیادہ تر زرعی پیداوار سے حاصل کی جاتی ہیں۔
- زرعی اجناس صنعت کے لئے خام مال فراہم کرتی ہیں جیسے کپاس ٹیکسٹائل انڈسٹری کا بنیادی ذریعہ ہے۔
- زرعی معیشت برآمدات اور زرمبادلہ کمانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
- کسانی نظام دیہی آبادی کی روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتا ہے۔
زرعی معیشت اور بڑے کتبے کا تعلق:
“بڑا کتبہ” اس تاریخی علامت یا تحریری ریکارڈ کو کہا جاتا ہے جو کسی قوم، تہذیب یا معیشت کے بنیادی ڈھانچے کو ظاہر کرتا ہے۔ زرعی معیشت اور بڑے کتبے کے درمیان گہرا تعلق اس لیے ہے کہ قدیم زمانوں میں انسانی زندگی کا زیادہ تر انحصار زراعت پر تھا۔ بڑے کتبے پر کندہ تحریریں اور علامات زرعی سرگرمیوں، زمین کی ملکیت، پیداوار کے نظام، محاصل کی وصولی اور دیہی سماجی ڈھانچے کو محفوظ کرتی تھیں۔
1۔ تاریخی ریکارڈ:
- بڑے کتبے پر اکثر زمین کی تقسیم، کھیتوں کی حدود اور پیداوار کا حساب درج ہوتا تھا۔
- یہ ریکارڈ زمینداروں اور کسانوں کے حقوق و فرائض کو واضح کرتا تھا۔
2۔ زرعی پیداوار اور محاصل:
- قدیم سلطنتوں میں زرعی پیداوار سے ہی ریاستی محاصل اور ٹیکس وصول کیے جاتے تھے۔
- بڑا کتبہ اس نظام کا تحریری ثبوت فراہم کرتا تھا جس پر ریاستی خزانہ قائم ہوتا تھا۔
3۔ سماجی و معاشرتی تعلقات:
- زرعی معیشت میں کسان، جاگیردار اور حکمران طبقات ایک دوسرے سے جڑے ہوتے تھے۔
- بڑے کتبے پر کندہ تحریریں اس سماجی ڈھانچے کی جھلک پیش کرتی تھیں۔
4۔ قانون اور انصاف:
- زراعت سے متعلق جھگڑوں، پانی کی تقسیم اور زمین کے تنازعات کو حل کرنے کے اصول بھی بڑے کتبے پر درج ہوتے تھے۔
- یوں زرعی معیشت اور عدالتی نظام ایک دوسرے سے جڑے رہتے تھے۔
5۔ ثقافت اور تہذیب:
- زرعی سرگرمیوں کے ذکر سے پتا چلتا ہے کہ کسی قوم کی تہذیب کا کتنا گہرا تعلق زمین اور کاشتکاری سے تھا۔
- بڑے کتبے میں درج یہ علامات ایک پوری تہذیبی زندگی کا عکس دکھاتی ہیں۔
پاکستان کے تناظر میں زرعی معیشت:
- پاکستان کی معیشت میں زراعت کا حصہ تقریباً 20 فیصد ہے جبکہ دیہی آبادی کا 60 فیصد سے زائد براہ راست اس سے وابستہ ہے۔
- پاکستان کی برآمدات میں کپاس اور اس سے بنی مصنوعات کا بڑا حصہ شامل ہے۔
- زراعت ملکی خوراک، روزگار اور صنعت کے لئے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔
- کسانی نظام آج بھی سماجی اور معاشی ڈھانچے کا اہم جزو ہے۔
نتیجہ:
نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ زرعی معیشت نہ صرف کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کی بنیاد ہے بلکہ اس کے سماجی اور تہذیبی ڈھانچے کو بھی تشکیل دیتی ہے۔ بڑے کتبے اور زرعی معیشت کا تعلق اس بات کا غماز ہے کہ زراعت صرف روزگار یا پیداوار کا ذریعہ نہیں بلکہ انسانی تہذیب اور تاریخ کی بنیاد بھی ہے۔ پاکستان جیسے زرعی ملک میں زرعی معیشت کی مضبوطی ہی خوشحال مستقبل کی ضمانت ہے۔
سوال نمبر 17:
پاکستان میں معاشی منصوبہ بندی کے بارے میں جامع نوٹ تحریر کریں۔
تعارف:
معاشی منصوبہ بندی سے مراد ایک ایسا منظم عمل ہے جس میں کسی ملک کے وسائل کو بہتر اور مؤثر طریقے سے استعمال کرتے
ہوئے
ترقی کے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہ عمل طے شدہ اہداف، حکمت عملیوں اور پالیسیوں کے تحت کیا جاتا ہے تاکہ معیشت کو
مضبوط کیا جا سکے، عوامی ضروریات پوری ہوں اور پائیدار ترقی حاصل ہو۔ پاکستان چونکہ ایک ترقی پذیر ملک ہے اس لیے
یہاں معاشی منصوبہ بندی قومی زندگی کے تمام پہلوؤں میں مرکزی اہمیت رکھتی ہے۔
پاکستان میں معاشی منصوبہ بندی کی اہمیت:
- وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ان کے مؤثر استعمال کو یقینی بنانا۔
- غربت میں کمی اور عوامی معیارِ زندگی کو بہتر بنانا۔
- معاشی ترقی کی سمت اور رفتار کو برقرار رکھنا۔
- صنعت، زراعت، توانائی اور خدمات کے شعبوں کو مربوط انداز میں آگے بڑھانا۔
- روزگار کے مواقع پیدا کر کے بیروزگاری پر قابو پانا۔
- برآمدات میں اضافہ اور درآمدات پر انحصار کم کرنا۔
پاکستان میں معاشی منصوبہ بندی کی ابتدا:
پاکستان میں معاشی منصوبہ بندی کا آغاز 1950 کی دہائی میں ہوا جب “پلاننگ کمیشن” کا قیام عمل میں آیا۔ ملک میں پہلی پانچ سالہ منصوبہ بندی 1955 میں شروع کی گئی جس کا مقصد زراعت، صنعت اور بنیادی ڈھانچے میں ترقی لانا تھا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً مختلف پانچ سالہ منصوبے اور سالانہ ترقیاتی پروگرام (ADP) ترتیب دیے گئے تاکہ معاشی ترقی کو مستحکم کیا جا سکے۔
پاکستان میں معاشی منصوبہ بندی کے ادوار:
1۔ پہلا دور (1955 تا 1960):
- زراعت کی ترقی پر زیادہ زور دیا گیا۔
- بنیادی صنعتوں کے قیام کے لئے اقدامات کیے گئے۔
2۔ دوسرا دور (1960 تا 1965):
- صنعتی ترقی میں تیزی آئی۔
- گرین ریولیوشن (سبز انقلاب) کے نتیجے میں زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا۔
- تاہم دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث معاشرتی ناہمواری بڑھی۔
3۔ تیسرا دور (1970 کی دہائی):
- قومیانے کی پالیسی اپنائی گئی۔
- کئی بڑی صنعتوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا۔
- اس پالیسی کے منفی اثرات صنعتی پیداوار اور سرمایہ کاری پر پڑے۔
4۔ چوتھا دور (1980 تا 1990):
- نجکاری اور آزاد معیشت کی طرف جھکاؤ ہوا۔
- ترسیلات زر میں اضافہ ہوا جس نے معیشت کو سہارا دیا۔
5۔ موجودہ دور (2000 تا اب تک):
- توانائی، انفراسٹرکچر، تعلیم اور صحت پر زیادہ توجہ دی گئی۔
- سی پیک (CPEC) جیسے بڑے منصوبوں کے ذریعے معاشی ترقی کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی۔
- تاہم بدانتظامی، کرپشن اور پالیسیوں کے تسلسل کی کمی نے منصوبہ بندی کے ثمرات کو کم کر دیا۔
پاکستان میں معاشی منصوبہ بندی کو درپیش مسائل:
- وسائل کی کمی اور ان کا غیر مؤثر استعمال۔
- بدعنوانی اور بدانتظامی۔
- سیاسی عدم استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل کا فقدان۔
- تعلیم اور صحت کے شعبے میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کی کمی۔
- توانائی بحران اور درآمدات پر انحصار۔
- غربت اور بے روزگاری کی بلند شرح۔
اصلاحی اقدامات:
- وسائل کے منصفانہ اور شفاف استعمال کو یقینی بنایا جائے۔
- پالیسیوں میں تسلسل اور سیاسی استحکام قائم کیا جائے۔
- تعلیم، صحت اور توانائی پر زیادہ سرمایہ کاری کی جائے۔
- برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی کے لئے مؤثر پالیسی اپنائی جائے۔
- جدید ٹیکنالوجی اور ہنر مند افرادی قوت کے فروغ پر توجہ دی جائے۔
نتیجہ:
نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں معاشی منصوبہ بندی ترقی کے سفر میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ تاہم اس کے ثمرات اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتے جب تک بدانتظامی، کرپشن اور سیاسی عدم استحکام جیسے مسائل پر قابو نہ پایا جائے۔ اگر شفاف منصوبہ بندی، مستقل پالیسیوں، اور وسائل کے بہتر استعمال کو یقینی بنایا جائے تو پاکستان نہ صرف ترقی کی دوڑ میں شامل ہو سکتا ہے بلکہ خطے میں ایک مضبوط معیشت کے طور پر ابھر سکتا ہے۔
سوال نمبر 18:
موجودہ تعلیمی مسائل کی نمایاں وجوہات میں اضافہ آبادی کا کیا حصہ ہے؟ وضاحت کریں۔
تعارف:
تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد ہے۔ مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں تعلیم کو بے شمار
مسائل
کا سامنا ہے۔ ان مسائل میں سب سے نمایاں وجہ آبادی میں تیز رفتار اضافہ ہے۔ آبادی کے بڑھنے سے تعلیمی اداروں پر بوجھ
بڑھتا ہے، وسائل کم پڑ جاتے ہیں اور حکومت کے لئے سب کو معیاری تعلیم دینا ایک مشکل کام بن جاتا ہے۔
آبادی میں اضافے اور تعلیمی مسائل کا تعلق:
آبادی میں اضافے اور تعلیمی مسائل کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ جتنا زیادہ آبادی بڑھے گی، اتنی ہی زیادہ تعلیمی سہولیات کی ضرورت ہوگی۔ لیکن محدود وسائل کے باعث یہ سہولیات سب کو مہیا نہیں کی جا سکتیں۔ اس طرح تعلیم کے معیار اور دستیابی پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔
1۔ تعلیمی اداروں پر دباؤ:
- آبادی میں اضافے کے باعث طلبہ کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
- سرکاری سکول اور کالج اپنی گنجائش سے کہیں زیادہ طلبہ کو داخلہ دینے پر مجبور ہیں۔
- نتیجتاً کلاس رومز میں طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہو جاتی ہے جس سے تدریسی معیار متاثر ہوتا ہے۔
2۔ وسائل کی کمی:
- حکومت کے پاس محدود بجٹ ہوتا ہے جس میں تعلیمی ادارے قائم کرنا، اساتذہ بھرتی کرنا اور تعلیمی سہولیات فراہم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
- زیادہ آبادی کی وجہ سے کتابیں، لیبارٹریز، کمپیوٹرز اور دیگر سہولیات ناکافی ہو جاتی ہیں۔
3۔ تعلیم کا معیار متاثر ہونا:
- بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے۔
- زیادہ طلبہ اور کم اساتذہ کے باعث تعلیمی معیار متاثر ہوتا ہے۔
- اساتذہ پر تدریسی بوجھ بڑھنے کی وجہ سے وہ طلبہ کو انفرادی توجہ نہیں دے پاتے۔
4۔ ناخواندگی میں اضافہ:
- زیادہ آبادی کے باعث سب بچوں کو سکول بھیجنا مشکل ہوتا ہے۔
- دیہی اور پسماندہ علاقوں میں تعلیمی اداروں کی کمی کے باعث لاکھوں بچے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔
- غربت کی وجہ سے والدین بچوں کو تعلیم دلوانے کے بجائے کام پر لگا دیتے ہیں۔
5۔ تعلیمی بجٹ پر دباؤ:
- زیادہ آبادی کے باعث تعلیم پر زیادہ اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے۔
- حکومت کو دیگر شعبوں جیسے صحت، روزگار اور بنیادی ڈھانچے پر بھی وسائل خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
- یوں تعلیم کے لئے مختص بجٹ ناکافی ہو جاتا ہے۔
6۔ شہری اور دیہی فرق:
- آبادی کے بڑھنے سے شہروں میں تعلیمی اداروں پر غیر معمولی دباؤ بڑھ گیا ہے۔
- دیہی علاقوں میں تعلیمی ادارے کم ہیں اور وہاں بچوں کو دور دراز سکول جانا پڑتا ہے۔
- اس فرق نے شہروں اور دیہات کے درمیان تعلیمی معیار میں نمایاں تفاوت پیدا کر دیا ہے۔
پاکستان میں موجودہ صورت حال:
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی میں اضافہ سب سے تیز ہے۔ موجودہ شرح آبادی نے تعلیمی نظام پر بھاری دباؤ ڈال دیا ہے۔ لاکھوں بچے سکول جانے کی عمر میں ہیں لیکن سہولیات کی کمی کے باعث وہ سکولوں سے باہر ہیں۔ تعلیمی ادارے زیادہ آبادی کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے شرح خواندگی بڑھنے کے بجائے رکی ہوئی ہے۔
حل اور تجاویز:
- آبادی پر کنٹرول کے لئے مؤثر پالیسی بنائی جائے۔
- تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے تاکہ زیادہ سکول اور کالج قائم ہو سکیں۔
- اساتذہ کی تعداد بڑھائی جائے اور ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔
- دیہی علاقوں میں تعلیم کو فروغ دینے کے لئے خصوصی منصوبے شروع کئے جائیں۔
- غریب بچوں کے لئے وظائف اور سکالرشپ کا انتظام کیا جائے تاکہ وہ تعلیم حاصل کر سکیں۔
نتیجہ:
نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ تعلیمی مسائل میں اضافہ آبادی سب سے بڑی وجہ ہے۔ جب تک آبادی کو قابو میں نہیں لایا جاتا اور تعلیمی شعبے کو زیادہ وسائل فراہم نہیں کئے جاتے، اس وقت تک تعلیم کے معیار میں بہتری ممکن نہیں۔ اگر حکومت اور عوام مل کر آبادی پر قابو پانے اور تعلیم کو اولین ترجیح دینے میں سنجیدہ اقدامات کریں تو پاکستان تعلیمی میدان میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔
سوال نمبر 19:
مسئلہ روزگار کا مطالعہ ترقی پذیر ممالک کے لئے کیوں اہم ترین ہے؟
تعارف:
روزگار انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت اور معیشت کی بقا کا اہم ذریعہ ہے۔ کسی بھی فرد کی معاشی خوشحالی اور معاشرتی
مقام اس کے روزگار سے منسلک ہوتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے لئے مسئلہ روزگار انتہائی اہم ہے کیونکہ ان ممالک کو ایک
طرف
بڑھتی ہوئی آبادی کا سامنا ہے اور دوسری طرف وسائل کی کمی اور صنعتی ترقی کی سست رفتاری انہیں بے روزگاری جیسے
مسائل میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اس لئے ترقی پذیر ممالک کے لئے روزگار کے مسائل کا مطالعہ اور ان کا حل تلاش کرنا
سب سے بڑی ترجیح ہے۔
روزگار کے مسائل کی اہمیت ترقی پذیر ممالک میں:
ترقی پذیر ممالک کو بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث سماجی، معاشی اور سیاسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ روزگار کے مسائل کا مطالعہ درج ذیل پہلوؤں سے خاص اہمیت رکھتا ہے:
1۔ معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ:
- روزگار کی کمی براہ راست قومی پیداوار (GDP) پر اثر ڈالتی ہے۔
- بے روزگار افرادی قوت ملکی ترقی میں حصہ نہیں ڈال سکتی۔
- ترقی پذیر ممالک میں بے روزگار افراد کی بڑی تعداد وسائل کے ضیاع کا باعث بنتی ہے۔
2۔ غربت اور سماجی مسائل:
- روزگار نہ ہونے کی وجہ سے لوگ غربت کا شکار ہوتے ہیں۔
- غربت جرائم، چوری اور معاشرتی بدامنی کو جنم دیتی ہے۔
- ترقی پذیر ممالک میں غربت اور بے روزگاری کا براہ راست تعلق ہے۔
3۔ مہارتوں کا زیاں:
- تعلیم یافتہ نوجوان جب روزگار سے محروم رہتے ہیں تو ان کی صلاحیتیں ضائع ہو جاتی ہیں۔
- یہ انسانی وسائل کا سب سے بڑا نقصان ہے جو ترقی پذیر ممالک کو کمزور کرتا ہے۔
4۔ ہجرت اور برین ڈرین:
- روزگار کی کمی کی وجہ سے لوگ ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔
- اس عمل کو “برین ڈرین” کہا جاتا ہے جس میں ہنر مند اور تعلیم یافتہ افراد ملک چھوڑ کر باہر چلے جاتے ہیں۔
- اس سے ترقی پذیر ممالک اپنی بہترین صلاحیتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
5۔ سیاسی عدم استحکام:
- بے روزگاری نوجوانوں میں مایوسی پیدا کرتی ہے۔
- مایوس نوجوان اکثر احتجاج، ہنگامہ آرائی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔
- یہ صورت حال ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرتی ہے۔
6۔ معیاری تعلیم اور روزگار میں ربط کی کمی:
- ترقی پذیر ممالک میں تعلیمی نظام اور مارکیٹ کی ضروریات کے درمیان فرق پایا جاتا ہے۔
- زیادہ تر نوجوان ڈگریاں تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن مارکیٹ کی ضروری مہارتوں سے محروم رہتے ہیں۔
- یہ خلا بے روزگاری میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
پاکستان کی صورت حال:
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں روزگار کا مسئلہ انتہائی سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی، صنعتی ترقی کی کمی، زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کا فقدان، اور غیر متوازن تعلیمی نظام کی وجہ سے لاکھوں نوجوان بے روزگار ہیں۔ حکومت کی طرف سے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے اقدامات ناکافی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان طبقہ یا تو بیرون ملک جانے پر مجبور ہوتا ہے یا پھر چھوٹے موٹے غیر رسمی شعبوں میں کام کرتا ہے۔
حل اور تجاویز:
- صنعتی شعبے کو فروغ دیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔
- زراعت کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ دیہی علاقوں میں روزگار بڑھے۔
- تعلیمی نصاب کو مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق ڈھالا جائے۔
- چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (SMEs) کے لئے آسان قرضوں کا انتظام کیا جائے۔
- بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے تاکہ نئی صنعتیں قائم ہوں اور روزگار کے مواقع بڑھیں۔
نتیجہ:
نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسئلہ روزگار کا مطالعہ ترقی پذیر ممالک کے لئے نہایت اہم ہے کیونکہ یہ مسئلہ براہ راست معاشی ترقی، سماجی استحکام اور سیاسی صورتحال پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر ترقی پذیر ممالک نے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے اور نوجوانوں کی صلاحیتوں کو مثبت سمت دینے پر توجہ نہ دی تو ان کا مستقبل مزید مشکلات سے دوچار ہو سکتا ہے۔ لہذا روزگار کے مسئلے کو اولین ترجیح دینا ترقی پذیر ممالک کی بقا اور خوشحالی کے لئے ناگزیر ہے۔
سوال نمبر 20:
زرعی لیبر فورس کسے کہتے ہیں؟ پاکستان میں زرعی لیبر فورس کی کیا صورت حال ہے؟
تعارف:
زرعی لیبر فورس سے مراد وہ تمام افراد ہیں جو زراعت کے مختلف شعبوں میں عملی طور پر کام کرتے ہیں۔
اس میں کاشتکار، کسان، ہاری، مزدور اور وہ تمام افراد شامل ہیں جو کھیتوں میں ہل چلاتے، بیج بوتے، فصل کاٹتے،
کھاد اور پانی فراہم کرتے یا مویشی پالنے جیسے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں۔
زرعی لیبر فورس کسی بھی زرعی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ یہ براہِ راست خوراک کی پیداوار
اور ملکی آمدنی سے وابستہ ہوتی ہے۔
زرعی لیبر فورس کی تعریف:
زرعی لیبر فورس سے مراد وہ فعال آبادی ہے جو زراعت کے شعبے میں مصروف عمل ہو۔ اس میں وہ تمام مزدور اور کسان شامل ہیں جو زمین پر کاشتکاری کے ذریعے اپنی روزی کماتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ فورس وہ انسانی سرمایہ ہے جو زراعت اور اس سے منسلک سرگرمیوں کے ذریعے ملکی معیشت میں حصہ ڈالتا ہے۔
پاکستان میں زرعی لیبر فورس کی صورت حال:
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں کی معیشت کا بڑا انحصار زراعت پر ہے۔ زرعی لیبر فورس نہ صرف خوراک کی پیداوار کو ممکن بناتی ہے بلکہ دیہی آبادی کے لئے روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔ تاہم پاکستان میں زرعی لیبر فورس کی صورت حال کئی چیلنجز اور مسائل کا شکار ہے، جو درج ذیل ہیں:
1۔ روزگار اور معیشت:
- پاکستان کی تقریباً 36 سے 40 فیصد لیبر فورس زراعت کے شعبے سے منسلک ہے۔
- دیہی علاقوں کی زیادہ تر آبادی کھیتوں اور مویشی بانی پر انحصار کرتی ہے۔
- زراعت ملکی برآمدات مثلاً کپاس، چاول اور گنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
2۔ مسائل اور مشکلات:
- زیادہ تر کسان چھوٹے پیمانے پر کاشت کرتے ہیں اور ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی کی کمی ہے۔
- زرعی لیبر کو معیاری تعلیم اور تربیت میسر نہیں، جس سے ان کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
- زیادہ تر مزدور غیر رسمی معاہدوں پر کام کرتے ہیں جس سے ان کو مزدوری کے مناسب حقوق اور سہولتیں نہیں ملتیں۔
- مزدور اکثر غربت، کم اجرت اور غیر محفوظ حالات کا شکار رہتے ہیں۔
3۔ خواتین اور زرعی لیبر فورس:
- پاکستان میں خواتین زرعی مزدوروں کی بڑی تعداد کھیتوں میں کام کرتی ہے۔
- وہ فصل بونے، چننے، کاٹنے اور مویشی پالنے جیسے کاموں میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔
- تاہم خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم اجرت ملتی ہے اور ان کے حقوق اکثر نظرانداز کیے جاتے ہیں۔
4۔ موجودہ چیلنجز:
- پانی کی کمی اور موسمی تبدیلیوں نے زرعی پیداوار کو متاثر کیا ہے۔
- بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث زمین پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
- جدید زرعی آلات اور مشینری تک رسائی محدود ہے۔
- کاشتکار مڈل مین کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔
5۔ حکومتی اقدامات اور حل:
- زرعی لیبر کے لئے جدید ٹیکنالوجی اور مشینری کی فراہمی ضروری ہے۔
- کسانوں کو تعلیم، تربیت اور جدید طریقۂ کاشتکاری سے روشناس کرایا جائے۔
- زرعی مزدوروں کے لئے اجرتوں کا تحفظ اور سماجی بہبود کی اسکیمیں متعارف کرائی جائیں۔
- خواتین کسانوں کو مساوی مواقع اور سہولتیں دی جائیں۔
نتیجہ:
نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ زرعی لیبر فورس پاکستان کی معیشت اور خوراک کے نظام کی بنیاد ہے۔ لیکن غربت، غیر معیاری سہولتوں اور جدید ٹیکنالوجی کی کمی نے ان کی کارکردگی کو محدود کر دیا ہے۔ اگر زرعی مزدوروں کو بہتر سہولتیں، مساوی اجرت، تعلیم اور جدید آلات فراہم کیے جائیں تو نہ صرف زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ ملکی معیشت بھی مضبوط ہوگی اور دیہی آبادی کی زندگی کے معیار میں بہتری آئے گی۔
سوال نمبر 21:
مندر جہ ذیل پر مختصر نوٹ تحریر کریں:
ا۔ بہبود آبادی
۲۔ پاپولیشن پالیسی
۳۔ شہری آبادی کے مسائل
۴۔ دیہی آبادی کے مسائل
تعارف:
کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کا دارومدار آبادی کے درست نظم و نسق اور اس کے مسائل کے مؤثر حل پر ہوتا ہے۔
آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ نے نہ صرف معاشی اور سماجی ڈھانچے کو متاثر کیا ہے بلکہ شہری اور دیہی زندگی میں بھی مختلف
مسائل کو جنم دیا ہے۔
اسی تناظر میں بہبود آبادی، آبادی کی پالیسی، شہری اور دیہی آبادی کے مسائل کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔
ا۔ بہبود آبادی:
بہبود آبادی سے مراد ایسے اقدامات اور منصوبے ہیں جن کے ذریعے آبادی کے مسائل کو کم کیا جائے اور افراد کی زندگی کے معیار کو بلند کیا جائے۔ اس میں خاندانی منصوبہ بندی، صحت عامہ کی سہولیات، تعلیم کی فراہمی، خواتین کو بااختیار بنانا اور بچوں کی نگہداشت شامل ہیں۔ پاکستان میں بہبود آبادی کے پروگراموں کا آغاز 1960 کی دہائی میں کیا گیا تاکہ تیزی سے بڑھتی آبادی کو کنٹرول کیا جا سکے۔ تاہم شرح خواندگی کی کمی، سماجی رویوں اور آگاہی کے فقدان کے باعث یہ پروگرام اپنی توقعات کے مطابق کامیاب نہ ہو سکے۔ آج بھی بہبود آبادی کے پروگراموں کا مقصد غربت میں کمی، صحت مند معاشرہ اور پائیدار ترقی ہے۔
۲۔ پاپولیشن پالیسی:
پاپولیشن پالیسی کسی بھی حکومت کی وہ حکمت عملی ہے جس کے ذریعے آبادی کے حجم، شرحِ پیدائش اور شرحِ اموات کو متوازن رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے تحت خاندانی منصوبہ بندی، مانع حمل ذرائع کی فراہمی، تعلیم اور خواتین کو صحت و سماجی سہولتوں کی فراہمی جیسے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں مختلف ادوار میں پاپولیشن پالیسی متعارف کرائی گئی، جس کا مقصد آبادی میں تیزی سے اضافے پر قابو پانا اور وسائل کے مطابق آبادی کو متوازن رکھنا تھا۔ 2002 اور 2010 کی پاپولیشن پالیسیوں میں زور دیا گیا کہ صحت عامہ کو بہتر بنایا جائے، خواتین کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے اور شرحِ تولید کو کم کیا جائے۔ ان پالیسیوں کے باوجود عملی سطح پر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
۳۔ شہری آبادی کے مسائل:
شہری آبادی کے مسائل بڑھتی ہوئی ہجرت اور آبادی کے دباؤ کی وجہ سے زیادہ پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں نمایاں مسائل درج ذیل ہیں:
- رہائش کی کمی اور کچی آبادیوں میں اضافہ۔
- روزگار کے مواقع کی کمی اور بے روزگاری میں اضافہ۔
- ٹریفک کا دباؤ اور ٹرانسپورٹ کے مسائل۔
- تعلیم اور صحت کی سہولیات کی کمی۔
- ماحولیاتی آلودگی، شور، اور صاف پانی کی قلت۔
- جرائم میں اضافہ اور سماجی مسائل جیسے منشیات اور غربت۔
ان مسائل نے شہری زندگی کو سخت متاثر کیا ہے اور ترقی کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔
۴۔ دیہی آبادی کے مسائل:
پاکستان کی بڑی آبادی دیہات میں رہتی ہے اور ان کی زندگی بھی کئی مسائل کا شکار ہے۔ ان میں اہم مسائل درج ذیل ہیں:
- تعلیمی سہولیات کا فقدان اور شرح خواندگی کی کمی۔
- صحت کی ناکافی سہولیات اور جدید ہسپتالوں کی کمی۔
- روزگار کے محدود مواقع، زیادہ تر انحصار زراعت پر۔
- غربت اور پسماندگی کی بلند شرح۔
- سڑکوں، بجلی، پانی اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی کمی۔
- زرعی وسائل پر دباؤ اور جدید ٹیکنالوجی کی کمی۔
دیہی آبادی کے مسائل نے وہاں کے لوگوں کو شہروں کی طرف ہجرت پر مجبور کر دیا ہے، جس سے شہری مسائل میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
نتیجہ:
نتیجہ یہ ہے کہ بہبود آبادی اور پاپولیشن پالیسی جیسے اقدامات اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک انہیں عملی سطح پر موثر انداز میں نافذ نہ کیا جائے۔ شہری اور دیہی آبادی دونوں کے مسائل قومی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر حکومت مؤثر حکمت عملی، تعلیم، صحت، روزگار اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پر توجہ دے تو آبادی کے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے اور پاکستان کو پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالا جا سکتا ہے۔