AIOU 437 Code Islamiat Elective Solved Guess Paper

AIOU 437 Code Islamiat Elective Solved Guess Paper

AIOU 437 Code Islamiat Elective Solved Guess Paper – 100%

AIOU 437 Code Islamiat Elective Solved Guess Paper is designed to support students in identifying key areas of focus for their upcoming exams. This guess paper highlights important questions related to Islamic teachings, Seerat-un-Nabi ﷺ, the significance of Ibadat, and the moral values promoted in Islam. It is crafted by reviewing previous exam trends and frequently asked topics to ensure better exam readiness. For more educational resources and free downloadable materials, visit mrpakistani.com and subscribe to our YouTube channel Asif Brain Academy for video-based assistance.

📘 437 Islamiat Elective Solved Guess Paper | 📥 Download PDF

سوال نمبر 1:

بنو عباس کا تعارف تحریر کیجئے نیز بنو عباس کی دینی و سیاسی یا علوم و ادب میں ہونے والی خدمات بیان کیجئے۔

بنو عباس کا تعارف:

بنو عباس ایک عظیم مسلم خلافت تھی جس کا آغاز 750ء میں ہوا اور یہ خلافت تقریباً پانچ صدیوں تک قائم رہی۔ اس خلافت کا آغاز بنو امیہ کے خاتمے کے بعد ہوا، اور اس کی بنیاد حضرت محمدﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب کی نسل سے تعلق رکھنے والے عباسی خاندان نے رکھی۔ ان کا پہلا خلیفہ ابو العباس السفاح تھا اور ان کی خلافت کا مرکز بغداد تھا، جو بعد ازاں علم و ادب اور تہذیب کا عالمی مرکز بن گیا۔

بنو عباس کی دینی خدمات:
  • عباسی دور میں قرآن و حدیث کی تدوین و ترویج کو فروغ ملا اور بڑے بڑے محدثین نے اپنی خدمات انجام دیں، جیسے امام بخاری، امام مسلم اور دیگر محدثین۔
  • فقہ کے چاروں مکاتب فکر کی بنیاد اسی دور میں رکھی گئی یا پختہ ہوئی جیسے امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل۔
  • علوم قرآن، تفسیر اور اصولِ حدیث کے میدان میں علمی ترقی ہوئی اور دینی مدارس کی بنیاد رکھی گئی۔

بنو عباس کی سیاسی خدمات:
  • عباسی خلفاء نے ایک منظم اور مضبوط مرکزی حکومت قائم کی اور مختلف علاقوں میں گورنر مقرر کیے۔
  • بغداد کو سیاسی مرکز بنایا گیا جو ایک عظیم دارالخلافہ بن کر ابھرا۔
  • اسلامی سلطنت کو وسعت دی گئی اور کئی علاقوں کو اسلامی حکومت کے تحت لایا گیا۔

بنو عباس کی علمی و ادبی خدمات:
  • بیت الحکمت (House of Wisdom) جیسا ادارہ قائم کیا گیا جہاں یونانی، فارسی، ہندی اور دیگر زبانوں کی کتب کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔
  • ریاضی، طب، فلسفہ، فلکیات، اور کیمیا جیسے علوم کو زبردست فروغ حاصل ہوا۔
  • مشہور مسلم سائنسدان جیسے ابن سینا، الرازی، الخوارزمی اور الفارابی اسی دور کے ماہرین تھے۔
  • ادب، شاعری اور نثر کو فروغ ملا۔ عربی ادب میں کئی شاہکار تخلیق ہوئے۔

نتیجہ:
خلافتِ عباسیہ کا دور اسلامی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ اس دور میں دین، سیاست، علم و ادب، فلسفہ اور سائنس میں جو ترقی ہوئی، اس نے نہ صرف مسلم دنیا کو فائدہ پہنچایا بلکہ یورپ میں نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کی بنیاد بھی رکھی۔ بنو عباس نے علمی، دینی اور تہذیبی میدانوں میں جو خدمات انجام دیں، وہ آج بھی قابلِ فخر اور قابلِ تقلید ہیں۔

سوال نمبر 2:

حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہد کی اصلاحات پر نوٹ لکھیں نیز ہلاکو خان کا بغداد پر حملے کے بارے میں نوٹ لکھیں۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہد کی اصلاحات:

حضرت عمر بن عبدالعزیز بنو امیہ کے آٹھویں خلیفہ تھے جنہوں نے 717ء سے 720ء تک خلافت کی۔ آپ کو “خلفائے راشدین” کے نقش قدم پر چلنے والا خلیفہ کہا جاتا ہے۔ آپ کی خلافت عدل، مساوات، دیانت داری اور اسلامی اقدار کے احیاء کے حوالے سے مشہور ہے۔

  • آپ نے بیت المال کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا اور ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی دولت کو واپس کروایا۔
  • سرکاری افسران کی نگرانی سخت کی گئی اور کرپشن کے خلاف مؤثر اقدامات کیے گئے۔
  • غیر مسلم رعایا کے ساتھ انصاف کیا گیا اور ان پر ناجائز ٹیکس ختم کیے گئے۔
  • علم و تعلیم کو فروغ دیا، حدیث کی تدوین کا آغاز کیا اور علمائے دین کی سرپرستی کی۔
  • غلاموں کو آزاد کرایا اور اسلامی مساوات کو عملی طور پر نافذ کیا۔

ہلاکو خان کا بغداد پر حملہ:

ہلاکو خان منگول بادشاہ چنگیز خان کا پوتا تھا۔ اس نے 1258ء میں عباسی خلافت کے دارالحکومت بغداد پر حملہ کیا، جو اسلامی دنیا کا علمی، تہذیبی اور سیاسی مرکز تھا۔ یہ حملہ تاریخِ اسلام کا ایک المناک باب ہے۔

  • 1258ء میں ہلاکو خان کی قیادت میں منگول فوج نے بغداد کو تباہ و برباد کر دیا۔
  • خلیفہ مستعصم باللہ کو قتل کیا گیا اور خلافت عباسیہ کا خاتمہ کر دیا گیا۔
  • ہزاروں علماء، طلباء، اور عوام شہید ہوئے اور کتب خانوں کو جلا کر دریائے دجلہ میں پھینکا گیا، یہاں تک کہ پانی سیاہ ہو گیا۔
  • بغداد کی علمی و تہذیبی روشنی صدیوں کے لیے مدھم ہو گئی۔
  • یہ حملہ مسلم دنیا کے زوال کی ایک بڑی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔

نتیجہ:
حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور خلافت عدل، انصاف اور اسلامی اصولوں کی عملی تصویر تھا، جبکہ ہلاکو خان کا حملہ اسلامی تاریخ کا اندوہناک واقعہ ہے جس نے ایک عظیم تہذیب کو وقتی طور پر مفلوج کر دیا۔ ان دونوں واقعات سے ہمیں عدل و انصاف کی اہمیت اور بدامنی و ظلم کے نتائج کا ادراک ہوتا ہے۔

سوال نمبر 3:

مسائل اثنا عشر کیا ہیں؟ ان مسائل میں آئمہ کے اختلاف کی نوعیت کیا ہے؟

مسائلِ اثنا عشر کا تعارف:

مسائلِ اثنا عشر سے مراد وہ بارہ فقہی مسائل ہیں جن میں چاروں مکاتبِ فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے آئمہ کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان اختلافات کی نوعیت اجتہادی ہے اور ان کا تعلق فروعی مسائل سے ہوتا ہے، نہ کہ عقائد یا دین کی بنیادی باتوں سے۔

مسائل اثنا عشر کی فہرست:
  • آمین آہستہ یا بلند آواز سے کہنا
  • نماز میں رفع یدین کرنا
  • فاتحہ خلف الامام (امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنا یا نہ پڑھنا)
  • قعدہ اولیٰ میں درود پڑھنا
  • نماز میں ہاتھ کہاں باندھنے چاہئیں (سینے پر یا ناف کے نیچے)
  • تکبیراتِ جنازہ کے بعد دعا پڑھنا
  • وتر نماز میں قنوت دعا کہاں پڑھی جائے
  • جمعہ کے خطبے کے دوران دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا
  • نماز میں سجدہ سہو کا طریقہ
  • اعتکاف کے دوران مسجد سے باہر جانا
  • نماز میں سورۃ کے بعد دوسری سورۃ ملانا
  • تیمم کا طریقہ اور اس کی شرائط

آئمہ کے اختلاف کی نوعیت:
ان مسائل میں آئمہ کا اختلاف دلیل، اجتہاد اور فہمِ حدیث کی بنیاد پر ہے۔ یہ اختلاف رحمت ہے اور اسلام کی وسعت اور لچک کو ظاہر کرتا ہے۔

  • حنفی فقہ: امام ابو حنیفہ قیاس، استحسان اور عرف کو اہمیت دیتے ہیں اور بعض اوقات روایت پر قیاس کو ترجیح دیتے ہیں۔
  • شافعی فقہ: امام شافعی حدیث کو مقدم رکھتے ہیں اور نصوص کی ظاہری تشریح کو ترجیح دیتے ہیں۔
  • مالکی فقہ: امام مالک مدینہ کے عمل کو حجت سمجھتے ہیں اور اسے حدیث کے برابر درجہ دیتے ہیں۔
  • حنبلی فقہ: امام احمد بن حنبل حدیث کو سب سے اہم ذریعہ قرار دیتے ہیں اور ضعیف حدیث کو بھی قیاس پر مقدم رکھتے ہیں۔

نتیجہ:
مسائلِ اثنا عشر میں آئمہ کرام کے اختلافات اسلام کی وسعت اور اجتہادی آزادی کا مظہر ہیں۔ یہ اختلافات اصولی نہیں بلکہ فروعی نوعیت کے ہیں، جن کا مقصد دین میں آسانی اور سہولت فراہم کرنا ہے۔ ہمیں ان اختلافات کو احترام سے دیکھنا چاہیے اور امت میں اتحاد و ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہیے۔

سوال نمبر 4:

صاحب ترتیب کسے کہتے ہیں نیز اس کی قضا نمازوں کی ادائیگی کا طریقہ قدوری میں کیا بیان ہوا ہے؟

صاحبِ ترتیب کا مفہوم:

فقہ اسلامی میں “صاحبِ ترتیب” اس شخص کو کہتے ہیں جس پر چند نمازیں قضا ہو گئی ہوں، اور وہ ان کی قضا اس ترتیب سے ادا کرے جس ترتیب سے وہ نمازیں قضا ہوئیں۔ یعنی فجر، پھر ظہر، پھر عصر، اسی ترتیب سے۔

شرط یہ ہے کہ قضا نمازیں چھ سے کم ہوں، اور وقت موجود ہو کہ وہ ترتیب سے نماز پڑھ سکے۔

صاحبِ ترتیب کی شرائط:
  • نمازوں کی قضا کی تعداد چھ سے کم ہو۔
  • وقت میں وسعت ہو کہ ترتیب کے ساتھ قضا اور موجودہ نماز ادا کر سکے۔
  • اگر ترتیب سے پڑھنے میں وقتِ حاضر کی نماز قضا ہونے کا اندیشہ ہو تو ترتیب ساقط ہو جاتی ہے۔

قدوری میں صاحبِ ترتیب کے بارے میں:

فقہ کی مشہور کتاب “مختصر القدوری” میں صاحبِ ترتیب کے بارے میں یہ بیان ہے کہ اگر کسی شخص کی کچھ نمازیں قضا ہو گئی ہوں اور وہ قضا نمازیں چھ سے کم ہوں تو اس پر لازم ہے کہ وہ ان نمازوں کو ترتیب سے ادا کرے۔ اگر اس نے بغیر ترتیب کے موجودہ نماز پڑھ لی تو وہ نماز دہرائے گا، بشرطیکہ وقت باقی ہو۔

مثال کے طور پر: اگر کسی شخص کی دو نمازیں (مثلاً فجر اور ظہر) قضا ہو گئی ہوں اور عصر کا وقت ہے، تو اسے فجر اور ظہر پہلے پڑھنی ہوں گی، پھر عصر ادا کرے گا۔ اگر وقت کم ہو اور عصر قضا ہونے کا اندیشہ ہو تو ترتیب ساقط ہو جائے گی، اور وہ عصر پہلے ادا کر سکتا ہے۔

نتیجہ:
صاحبِ ترتیب وہ شخص ہے جس پر قضا نمازیں اس حد تک کم ہوں کہ وہ ترتیب سے پڑھ سکتا ہو۔ قدوری میں اس کے لیے ترتیب کی پابندی کو ضروری قرار دیا گیا ہے، بشرطیکہ وقت اجازت دے۔ یہ فقہی اصول نماز کی اہمیت اور ترتیب کی پابندی کی تعلیم دیتا ہے۔

سوال نمبر 5:

خلافت بنو امیہ کے قیام، دورِ عروج اور زوال کے اسباب لکھیں نیز ہارون الرشید اور اس کے دور حکومت پر نوٹ لکھیں۔

خلافت بنو امیہ کا قیام:

خلافت بنو امیہ کا آغاز 661ء میں حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد ہوا جب امیر معاویہؓ نے دمشق کو دارالخلافہ بنا کر خلافت سنبھالی۔ بنو امیہ کا دور خلافت 750ء تک جاری رہا۔ یہ خلافت مورثی نظام کے تحت چلی جس میں خاندانِ اموی کے افراد ہی حکمران بنتے رہے۔

دورِ عروج:
  • اموی خلافت کا سب سے طاقتور دور عبدالملک بن مروان اور ولید بن عبدالملک کے ادوار میں رہا۔
  • اسلامی فتوحات اسپین، افریقہ، ترکستان اور وسطی ایشیا تک پھیل گئیں۔
  • عربی کو سرکاری زبان بنایا گیا اور مضبوط انتظامی نظام قائم ہوا۔
  • سکہ سازی اور بیت المال کے نظام میں بہتری لائی گئی۔

زوال کے اسباب:
  • بنو امیہ نے حکمرانی کو موروثی بنا دیا جس سے لوگوں میں ناراضگی پیدا ہوئی۔
  • عرب و عجم کے درمیان تفریق نے غیر عرب مسلمانوں کو نالاں کیا۔
  • بعض خلفاء کی عیش و عشرت کی زندگی اور عدل و انصاف کی کمی۔
  • بنو عباس کی تحریک نے بنو امیہ کے خلاف بغاوت کو منظم کیا۔
  • 750ء میں ابوالعباس السفاح کے ہاتھوں آخری اموی خلیفہ مروان ثانی قتل ہوا اور بنو امیہ کی خلافت ختم ہو گئی۔

ہارون الرشید اور اس کے دور حکومت کا جائزہ:

ہارون الرشید عباسی خلافت کے پانچویں خلیفہ تھے جنہوں نے 786ء سے 809ء تک حکومت کی۔ ان کا دور اسلامی تاریخ کا سنہرا دور کہلاتا ہے۔

  • علم و ادب کو بے حد فروغ ملا، بغداد علم و حکمت کا مرکز بن گیا۔
  • دارالحکمت (بیت الحکمہ) کا قیام عمل میں آیا جہاں دنیا بھر کی کتابیں ترجمہ کی گئیں۔
  • عدل و انصاف اور نظم و نسق کا بہترین نظام قائم کیا گیا۔
  • خلافت کے رقبے میں وسعت آئی اور بیرونی دنیا کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے گئے۔
  • ہارون الرشید کی شخصیت کو اسلامی تاریخ میں ایک عظیم الشان حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

نتیجہ:
خلافت بنو امیہ کی بنیاد نے اسلامی حکومت کو وسعت دی، مگر چند غلط پالیسیوں کی بنا پر اس کا زوال ہوا۔ جبکہ ہارون الرشید کا دور علم، تہذیب، اور ترقی کا عظیم مظہر تھا جس کی مثال آج بھی دی جاتی ہے۔

سوال نمبر 6:

مرد اور عورت کے کفن میں کیا فرق ہے نیز مردے کو کفنانے، جنازے اور دفنانے کا مکمل طریقہ لکھیں۔

مرد اور عورت کے کفن میں فرق:

اسلامی تعلیمات کے مطابق مرد اور عورت کے کفن کی تعداد اور ترتیب میں کچھ فرق ہوتا ہے:
  • مرد کا کفن: تین کپڑوں پر مشتمل ہوتا ہے: (1) ازار (تہبند)، (2) قمیص (کرتی)، (3) چادر (اوڑھنی)۔
  • عورت کا کفن: پانچ کپڑوں پر مشتمل ہوتا ہے: (1) ازار، (2) قمیص، (3) اوڑھنی، (4) سینہ بند، (5) بڑی چادر۔

کفنانے کا طریقہ:
  • غسل کے بعد مردے کو خوشبو لگائی جاتی ہے (اگر میسر ہو)۔
  • مرد کو تین کپڑوں میں کفنایا جاتا ہے اور عورت کو پانچ کپڑوں میں۔
  • کفن اچھی طرح لپیٹا جاتا ہے تاکہ جسم چھپا رہے۔
  • کفن کی گرہیں بند کی جاتی ہیں تاکہ کھلے نہ۔

جنازے کا طریقہ:
  • میت کو جنازے کی چارپائی پر رکھا جاتا ہے۔
  • نماز جنازہ فرض کفایہ ہے، یعنی چند لوگ بھی پڑھ لیں تو سب کی طرف سے ادا ہو جاتی ہے۔
  • نماز جنازہ میں چار تکبیریں ہوتی ہیں:
    • پہلی تکبیر کے بعد ثناء (سبحانک اللھم…)،
    • دوسری کے بعد درود شریف،
    • تیسری کے بعد میت کے لیے دعا،
    • چوتھی کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔

دفنانے کا طریقہ:
  • میت کو قبر میں اس طرح رکھا جاتا ہے کہ چہرہ قبلہ رخ ہو۔
  • قبر میں لحد یا شق بنائی جاتی ہے (جس جگہ میت رکھی جاتی ہے)۔
  • میت کو زمین پر آرام سے رکھا جاتا ہے اور “بسم اللہ وعلیٰ ملۃ رسول اللہ” کہا جاتا ہے۔
  • پھر مٹی ڈال کر قبر کو برابر کیا جاتا ہے۔
  • دفن کے بعد دعا مانگی جاتی ہے اور کچھ وقت قبر کے پاس ٹھہر کر قرآن پڑھا جاتا ہے۔

نتیجہ:
اسلام میں میت کی تکریم کا مکمل اور منظم نظام موجود ہے۔ کفن، جنازہ اور تدفین کا طریقہ شریعت کے مطابق عزت، احتیاط اور دعا کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے، جو زندہ افراد کے لیے بھی باعثِ عبرت اور نصیحت ہے۔

سوال نمبر 7:

صلاة المریض کے متعلقات کو بیان کیجئے نیز نماز استسقاء کے مسائل بیان کیجئے۔

صلاة المریض کے متعلقات:

شریعتِ مطہرہ میں مریض کو نماز معاف نہیں، بلکہ اسے اپنی حالت کے مطابق نماز پڑھنے کا حکم ہے۔ “صلاة المریض” یعنی مریض کی نماز کے درج ذیل اہم متعلقات ہیں:
  • اگر مریض کھڑا ہونے پر قادر ہو تو فرض نماز کھڑے ہو کر پڑھے۔
  • اگر کھڑا نہ ہو سکے تو بیٹھ کر نماز پڑھے۔
  • بیٹھنے کی طاقت بھی نہ ہو تو لیٹ کر، کروٹ پر یا پشت کے بل نماز پڑھے۔
  • اگر اشارے کے سوا کچھ ممکن نہ ہو تو صرف اشارے سے نماز پڑھے، سجدہ کا اشارہ رکوع سے زیادہ جھک کر کرے۔
  • وضو کرنے پر قادر نہ ہو تو تیمم کرے۔
  • قبلہ رخ ہونا ضروری ہے، اگر ممکن نہ ہو تو اپنی استطاعت کے مطابق رخ کر لے۔
  • نماز قضا نہ کرے، حالت جیسی بھی ہو، فرض نماز وقت پر پڑھنی ہے۔

نماز استسقاء کے مسائل:
“نماز استسقاء” قحط یا بارش نہ ہونے کی صورت میں بارانِ رحمت کے لیے مانگی جانے والی خاص نماز ہے۔ اس کے چند اہم مسائل درج ذیل ہیں:
  • جب کسی علاقے میں بارش نہ ہو اور خشک سالی ہو جائے تو لوگ دو رکعت نماز استسقاء ادا کرتے ہیں۔
  • یہ نماز عید کی نماز کی طرح دو رکعت ہے، جس میں زائد تکبیریں پڑھی جاتی ہیں۔
  • نماز کے بعد امام بارش کی دعا کرتا ہے، جو اجتماعی اور عاجزی سے مانگی جاتی ہے۔
  • نماز کھلے میدان میں ادا کی جاتی ہے تاکہ عاجزی اور انکساری ظاہر ہو۔
  • دعا میں گناہوں پر ندامت، توبہ، اور اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کی جاتی ہے۔
  • نماز سے پہلے تین دن تک توبہ، صدقہ، اور روزے کا اہتمام کرنا مستحب ہے۔

نتیجہ:
شریعت نے مریض کو رعایت دی ہے، مگر نماز کی اہمیت برقرار رکھی ہے۔ اسی طرح نماز استسقاء اللہ کی رحمت طلب کرنے کا ذریعہ ہے، جو ہمیں عاجزی، دعا، اور توبہ کا درس دیتی ہے۔ دونوں عبادات انسان کے اللہ سے تعلق کو مضبوط بنانے کا ذریعہ ہیں۔

سوال نمبر 8:

سجدہ سہو اور مکروہات نماز پر نوٹ لکھئے نیز اذان اور اقامت کے مسائل تحریر کیجئے۔

سجدہ سہو کا مفہوم اور احکام:

سجدہ سہو اس سجدے کو کہتے ہیں جو نماز میں بھول چوک (بھول کر کوئی فرض یا واجب چھوڑنے یا زائد کرنے) کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے۔ اس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
  • اگر نماز میں کوئی واجب چھوڑ جائے یا زائد ہو جائے تو سجدہ سہو لازم ہوتا ہے۔
  • سجدہ سہو نماز کے آخر میں “تشہد” کے بعد دو سجدے کیے جاتے ہیں، پھر دوبارہ تشہد، درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیرا جاتا ہے۔
  • امام اور منفرد دونوں پر سجدہ سہو واجب ہوتا ہے، مگر مقتدی امام کے ساتھ اس میں شریک ہوتا ہے۔
  • اگر سجدہ سہو کرنا بھول جائے تو نماز دوبارہ پڑھنا واجب نہیں، لیکن احتیاطاً بہتر ہے۔

مکروہاتِ نماز:
نماز میں وہ افعال جو نماز کے ثواب کو کم کر دیتے ہیں یا خشوع و خضوع کو متاثر کرتے ہیں، مکروہات کہلاتے ہیں۔ چند اہم مکروہات درج ذیل ہیں:
  • نماز میں بار بار کپڑوں یا بدن کو چھونا یا درست کرنا۔
  • کسی چیز کی طرف بار بار دیکھنا یا ادھر ادھر دیکھنا۔
  • بلا ضرورت کھنکارنا یا تھوکنا۔
  • نماز میں اونچی آواز سے رونا یا ہنسنا۔
  • آستین چڑھانا، انگلیاں چٹخانا، یا کپڑے سے کھیلنا۔
  • اتنی بھوک یا پیاس میں نماز پڑھنا کہ توجہ نہ رہے۔

اذان اور اقامت کے مسائل:

  • اذان نماز کے وقت کے اعلان اور بلانے کا عمل ہے، جو فرض نماز کے لیے مشروع ہے۔
  • اقامت وہ کلمات ہیں جو نماز کے قیام سے فوراً پہلے کہے جاتے ہیں۔
  • اذان کا وقت نماز کے وقت کے داخل ہونے پر شروع ہوتا ہے، اور بغیر وقت کے اذان کہنا مکروہ ہے۔
  • اذان اور اقامت دونوں مرد کے لیے سنت مؤکدہ ہیں، عورت اذان اور اقامت نہیں کہے گی۔
  • اذان کھڑے ہو کر، قبلہ رخ، بلند آواز سے دی جاتی ہے۔
  • اقامت امام کے قریب کھڑے ہو کر کہی جاتی ہے اور اس میں جلدی کی جاتی ہے۔
  • اذان سن کر جواب دینا مستحب ہے، اور اذان کے بعد درود شریف اور دعا پڑھنی چاہیے۔

نتیجہ:
سجدہ سہو نماز کی بھول چوک کی تلافی کا ذریعہ ہے جبکہ مکروہات نماز کے خشوع کو کم کرتے ہیں، ان سے بچنا ضروری ہے۔ اسی طرح اذان اور اقامت اسلامی عبادات کا شعار ہیں جن کے ذریعے نماز کا نظام قائم رہتا ہے۔

سوال نمبر 9:

نماز با جماعت کے مسائل اور امامت کی اہلیت کی شرائط تحریر کریں۔

نماز با جماعت کے مسائل:

نماز باجماعت مسلمانوں کے لیے عظیم اجتماعی عبادت ہے، جس کی بہت فضیلت احادیث میں بیان ہوئی ہے۔ اس کے چند اہم مسائل درج ذیل ہیں:
  • نماز باجماعت فرض کفایہ ہے، یعنی اگر کچھ لوگ ادا کریں تو باقی سے ساقط ہو جاتی ہے، لیکن سب چھوڑ دیں تو سب گناہگار ہوں گے۔
  • مردوں کے لیے باجماعت نماز کی خاص تاکید ہے، جبکہ عورتوں کے لیے گھروں میں نماز افضل ہے۔
  • امام کے پیچھے مقتدی کو نیت کرنی چاہیے کہ وہ جماعت سے نماز پڑھ رہا ہے۔
  • نماز با جماعت میں امام کی قراءت مقتدی کے لیے کافی ہوتی ہے، صرف سورۂ فاتحہ یا قرآن سننا کافی ہوتا ہے۔
  • صفیں سیدھی اور متصل ہونی چاہئیں، پہلی صف کی فضیلت سب سے زیادہ ہے۔
  • اگر کوئی جماعت میں دیر سے شامل ہو تو وہ امام کے ساتھ جو رکعت ملے وہ پڑھے، پھر باقی خود پوری کرے۔

امامت کی اہلیت کی شرائط:
نماز کی امامت ایک باعزت اور ذمہ دار عہدہ ہے، اس کے لیے درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:
  • مسلمان ہونا: کافر کی امامت جائز نہیں۔
  • عاقل اور بالغ ہونا: نابالغ اور مجنون کی امامت صحیح نہیں۔
  • عادل ہونا: فاسق، یعنی گناہگار شخص کی امامت مکروہ ہے۔
  • صحیح قراءت جانتا ہو: جو شخص قرآن صحیح نہ پڑھتا ہو وہ امامت کا اہل نہیں۔
  • مرد ہونا: مردوں کی نماز میں امام بھی مرد ہی ہو سکتا ہے۔
  • فقہ و احکام نماز سے واقف ہونا: تاکہ نماز میں کسی غلطی کی اصلاح کر سکے۔
  • صحت و طہارت: امام کو وضو، پاک لباس اور طہارت کی حالت میں ہونا ضروری ہے۔

نتیجہ:
نماز باجماعت امت مسلمہ کی وحدت اور یکجہتی کی علامت ہے اور امام کا کردار انتہائی اہم ہے، اس لیے امام میں دینی، اخلاقی اور علمی صفات کا ہونا لازمی ہے تاکہ نماز صحیح طریقے سے ادا کی جا سکے۔

سوال نمبر 10:

خلیفہ ولید بن عبد الملک کے دور کی سیاسی اور معاشرتی سرگرمیاں تفصیل سے لکھیں۔

خلیفہ ولید بن عبدالملک کا تعارف:

ولید بن عبد الملک، بنو امیہ کے عظیم خلیفہ تھے، جن کا دور خلافت 705 عیسوی سے 715 عیسوی تک تھا۔ ان کے دور میں اسلامی خلافت کی شان و شوکت میں اضافہ ہوا، اور مسلمانوں نے کئی اہم فتوحات حاصل کیں۔ ان کا دور، ایک طرف جہاں فتوحات کا دور تھا، وہاں دوسری طرف معاشرتی ترقی بھی ہوئی۔سیاسی سرگرمیاں:

خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں مسلمانوں نے سیاسی میدان میں اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ ان کے دور کی کچھ اہم سیاسی سرگرمیاں درج ذیل ہیں:
  • فتح قسطنطنیہ کی کوشش: ولید بن عبد الملک نے قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) پر حملہ کرنے کی کوشش کی، جو ایک اہم ترین منصوبہ تھا، لیکن اس پر مکمل فتح حاصل نہ ہو سکی۔
  • عراق اور ایران میں فتوحات: ولید کے دور میں عراق اور ایران کے علاقوں میں مسلمانوں کی فوجوں نے اہم فتوحات حاصل کیں، جس سے خلافت کا دائرہ وسیع ہوا۔
  • اندلس میں فتوحات: ولید بن عبدالملک کے دور میں اندلس (موجودہ سپین) میں مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا، جس کا اثر پوری یورپ پر پڑا۔
  • مصر میں استحکام: مصر میں مسلمانوں کا اقتدار مستحکم ہوا اور وہاں کی معیشت میں بھی بہتری آئی۔

معاشرتی سرگرمیاں:

ولید بن عبدالملک کے دور میں معاشرتی ترقی کی طرف بھی خاص توجہ دی گئی۔ ان کی معاشرتی سرگرمیاں درج ذیل ہیں:
  • عوامی خدمات: ولید بن عبدالملک نے عوامی خدمات کی فراہمی کے لیے اہم اقدامات کیے، جن میں نہریں کھودنے، سڑکوں کی تعمیر اور پانی کی فراہمی کے منصوبے شامل ہیں۔
  • تعلیمی ترقی: ان کے دور میں تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آیا، خاص طور پر قرآن کی تعلیم دینے کے لیے مدارس قائم کیے گئے۔
  • اسلامی فنون کا فروغ: ولید بن عبدالملک نے اسلامی فنون اور تعمیرات کے شعبے میں اہم ترقی کی۔ ان کے دور میں دمشق میں عظیم ترین مسجد کی تعمیر کی گئی، جسے مسجد امویہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
  • معاشی ترقی: ولید کے دور میں معیشت مستحکم ہوئی، اور تجارت کو فروغ دیا گیا۔ ان کی حکمرانی میں اسلامی دنیا کی معیشت کے مختلف شعبے مستحکم ہوئے، اور مسلمانوں نے کئی تجارتی راستوں پر قابض ہو گئے۔
  • مساوات اور عدلیہ: ولید بن عبدالملک نے عدلیہ میں اصلاحات کیں تاکہ انصاف کی فراہمی میں شفافیت اور عدلیہ کی آزادی ہو سکے۔

نتیجہ:
خلیفہ ولید بن عبدالملک کا دور ایک مثالی دور تھا جس میں سیاسی اور معاشی ترقی کے علاوہ اسلامی فنون، تعلیم اور سماجی خدمات میں بھی بہتری آئی۔ ان کی حکمت عملیوں نے اسلامی دنیا میں ایک طویل عرصے تک اثرات چھوڑے، اور ان کے اقدامات آج تک مسلمانوں کے لیے ایک سبق ہیں۔

سوال نمبر 11:

باب السلام کی احادیث کی روشنی میں سلام کی فضیلت اور آداب پر مضمون لکھیں۔

تعارف:
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسانوں کو حسن اخلاق، محبت، بھائی چارے اور سلامتی کی تعلیم دیتا ہے۔ ان ہی تعلیمات میں “سلام” کی خاص اہمیت ہے۔ سلام نہ صرف اسلامی شعار ہے بلکہ ایک عظیم عبادت بھی ہے جو دلوں میں محبت، اخوت اور امن پیدا کرتا ہے۔باب السلام کی احادیث:
“باب السلام” کے تحت کئی احادیث صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث میں وارد ہوئی ہیں جن میں سلام کے فضائل، اس کے آداب اور اس کی برکات کا بیان موجود ہے۔ حضرت عبد اللہ بن سلامؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“اے لوگو! سلام کو عام کرو، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو، کھانا کھلاؤ، اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو، سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔” (ترمذی)
سلام کی فضیلت:
  • سلام اللہ تعالیٰ کے ایک صفاتی نام “السلام” سے ماخوذ ہے، جو امن اور سلامتی کی علامت ہے۔
  • سلام دینے والا اور جواب دینے والا دونوں اللہ کی رحمت میں آتے ہیں۔
  • سلام کرنے سے باہمی محبت بڑھتی ہے۔
  • یہ مسلمانوں کے درمیان اخوت، یگانگت اور امن کا ذریعہ بنتا ہے۔
  • سلام سے شیطان کی چالیں ناکام ہوتی ہیں، کیونکہ یہ دلوں کو جوڑتا ہے۔
سلام کے آداب:
احادیث میں سلام کے کچھ آداب بھی بیان کیے گئے ہیں جن پر عمل کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے:
  • چھوٹے کو بڑے کو سلام کرنا چاہیے۔
  • سوار، پیدل کو سلام کرے۔
  • چلتا ہوا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔
  • تھوڑی دیر کے لیے جدا ہونے کے بعد دوبارہ ملاقات ہو تو پھر سے سلام کیا جائے۔
  • مجلس میں داخل ہوتے وقت اور نکلتے وقت سلام کرنا چاہیے۔
  • سلام مکمل الفاظ میں کہنا چاہیے: السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته
سلام کا جواب دینا:
قرآن مجید میں حکم ہے:
“اور جب تمہیں کوئی سلام کرے تو تم اس سے بہتر جواب دو یا ویسا ہی جواب دو۔” (النساء: 86)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے اور بہتر طریقے سے دینا افضل ہے۔نتیجہ:
سلام ایک سادہ مگر عظیم عمل ہے جو ہمارے معاشرے میں محبت، بھائی چارے، امن اور خیر خواہی کو فروغ دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کی سنت کے مطابق سلام کو عام کریں اور اس کے آداب و فضائل کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔

سوال نمبر 12:

درج ذیل پر نوٹ لکھیں:

  1. نماز با جماعت سے متعلق مسائل
  2. نماز عیدین

1۔ نماز با جماعت سے متعلق مسائل:

فضیلت:
نماز باجماعت اسلام میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
“جماعت کے ساتھ نماز، اکیلے کی نماز سے ستائیس درجے افضل ہے۔” (صحیح بخاری)
حکم:
بالغ، عاقل، مرد مسلمان پر پنج وقتہ نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا سنت مؤکدہ یا بعض فقہاء کے نزدیک واجب ہے، خاص طور پر مسجد میں۔اہلیتِ امامت:
امام کے لیے درج ذیل شرائط ہونا ضروری ہیں:
  • مسلمان ہو
  • عاقل و بالغ ہو
  • نماز کے فرائض و سنتوں سے واقف ہو
  • فاسق و فاجر نہ ہو
  • قرآن درست تلفظ کے ساتھ پڑھ سکتا ہو
صف بندی کے اصول:
  • امام کے پیچھے پہلی صف سے آغاز کیا جائے۔
  • صفیں برابر اور جُڑی ہوئی ہوں۔
  • کسی کو اکیلا پیچھے نہ چھوڑا جائے۔
عورتوں کی جماعت:
عورتوں کی جماعت مکروہ تنزیہی ہے، لیکن اگر عورتیں تنہا نماز پڑھیں تو افضل ہے۔

2۔ نماز عیدین:

تعریف:
عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز کو نماز عیدین کہا جاتا ہے۔ یہ دو رکعت نماز ہے جو سال میں صرف دو بار ادا کی جاتی ہے۔حکم:
نماز عیدین سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے، یعنی اگر ایک جماعت ادا کر لے تو باقی سب سے ساقط ہو جاتی ہے، لیکن ترک کرنا گناہ ہے۔نماز کا وقت:
سورج بلند ہونے کے بعد سے زوال آفتاب سے پہلے تک۔طریقہ نماز:
  • دو رکعت نماز پڑھی جاتی ہے بغیر اذان و اقامت کے۔
  • نماز میں 6 زائد تکبیریں کہی جاتی ہیں (حنفی فقہ کے مطابق: پہلی رکعت میں 3 شروع میں اور دوسری میں قراءت سے پہلے 3 تکبیریں)۔
  • نماز کے بعد امام خطبہ دیتا ہے جسے سننا واجب ہے۔
خطبہ عید:
عیدین کے خطبے میں توبہ، شکر، خوشی، اور قربانی یا فطرانہ کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے۔مستحبات:
  • عید الفطر سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا۔
  • عید کے دن غسل کرنا، خوشبو لگانا اور اچھے کپڑے پہننا۔
  • عید الفطر پر نماز سے پہلے کچھ میٹھا کھانا (مثلاً کھجور)، جبکہ عید الاضحی میں نماز کے بعد کھانا۔
نتیجہ:
نماز باجماعت اور نماز عیدین دونوں اسلام کے اہم اجتماعی اعمال میں سے ہیں، جو مسلمانوں کے درمیان اتحاد، اتفاق اور دین کے شعائر کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔

سوال نمبر 13:

مسائلِ اثنا عشر کیا ہیں، ان مسائل میں آئمہ کے اختلاف کی نوعیت کیا ہے؟

تعارف:
فقہ اسلامی میں بعض مسائل ایسے ہیں جن پر ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ، امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ) کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان میں سے بارہ مشہور مسائل کو “مسائلِ اثنا عشر” کہا جاتا ہے۔مسائلِ اثنا عشر کی فہرست:
  1. فاتحہ خلف الامام (نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا)
  2. بسملہ بالجہر (نماز میں بسم اللہ بلند آواز سے پڑھنا)
  3. رفع یدین (رکوع جاتے اور اٹھتے وقت ہاتھ اٹھانا)
  4. وضع یدین (نماز میں ہاتھ باندھنے کا مقام)
  5. جلسہ استراحت (نماز میں دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا)
  6. تشہد میں انگلی اٹھانا
  7. دعائے قنوت (نماز وتر میں قنوت کا وقت اور مقام)
  8. آمین بالجہر (نماز میں آمین بلند آواز سے کہنا)
  9. سورۃ کے بعد سورۃ ملانا (نماز میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ پڑھنا)
  10. قرأت خلف الامام (جہری نمازوں میں امام کے پیچھے قرأت کرنا)
  11. نماز وتر واجب یا سنت
  12. نماز تراویح کی تعداد رکعت
اختلاف کی نوعیت:
ان بارہ مسائل میں اختلاف اصولی نوعیت کا نہیں بلکہ فروعی (جزوی) نوعیت کا ہے۔ ان اختلافات کی بنیاد قرآن و حدیث کے مختلف فہم، راویات کی ترجیح، قیاس، عملِ صحابہ اور اجتہاد پر ہے۔مثال کے طور پر:
  • فاتحہ خلف الامام: امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جہری نماز میں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی جاتی، جبکہ امام شافعیؒ کے نزدیک پڑھنا واجب ہے۔
  • رفع یدین: امام مالکؒ اور امام شافعیؒ رفع یدین کے قائل ہیں جبکہ امام ابوحنیفہؒ نہیں۔
  • آمین بالجہر: امام شافعیؒ کے نزدیک آمین بلند آواز سے کہنی چاہیے، جب کہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک آہستہ۔
نتیجہ:
مسائل اثنا عشر فقہی اختلافات کی نمائندہ مثالیں ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجتہدین نے کتاب و سنت سے اجتہاد کے ذریعے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ان اختلافات کو وسعت نظری سے دیکھنا چاہیے اور کسی پر طعن و تشنیع نہیں کرنا چاہیے۔ ان میں ہر رائے کے پیچھے دلیل اور اجتہاد ہوتا ہے۔

نوٹ:

یہ تمام مواد انتہائی تحقیق اور دیانتداری کے ساتھ تیار کیا گیا ہے۔ تاہم اگر کسی مقام پر کوئی دینی یا علمی غلطی ہو گئی ہو تو یہ غیر ارادی ہے۔ برائے کرم ہمیں اصلاح کی نیت سے مطلع کریں۔ آپ ہماری ٹیم سے واٹس ایپ پر رابطہ کریں: 03036940016۔

یہ اسلامیات کا مضمون ہے اور ہم ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ کسی بھی مسلمان کے جذبات مجروح نہ ہوں۔ جزاک اللہ خیراً۔

AIOU Guess Papers, Date Sheet, Admissions & More:

AIOU ResourcesVisit Link
AIOU Guess PaperClick Here
AIOU Date SheetClick Here
AIOU AdmissionClick Here
AIOU ProspectusClick Here
AIOU Assignments Questions PaperClick Here
How to Write AIOU Assignments?Click Here
AIOU Tutor ListClick Here
How to Upload AIOU Assignments?Click Here

Related Post:

Share Your Thoughts and Feedback

Leave a Reply

Sharing is Caring:

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp
Pinterest