AIOU 473 Code Hadith Solved Guess Paper

AIOU 473 Code Hadith Solved Guess Paper

AIOU 473 Code Hadith Solved Guess Paper – 100% Solved

The AIOU 473 Code Hadith Solved Guess Paper has been thoughtfully prepared to help students focus on the most relevant and frequently asked questions from the subject “حدیث”. This guess paper includes important Ahadith, explanations, short questions, and thematic insights that are commonly highlighted in previous examinations. It’s an excellent tool for exam preparation, especially for those aiming to cover essential topics in a short time. For more solved guess papers and academic support, visit mrpakistani.com and watch helpful content on the Asif Brain Academy YouTube channel.

473 Code Hadith Solved Guess Paper | 📥 Download PDF

سوال نمبر 1:

مصابیح السنۃ اور مشکوۃ المصابیح کے مصنفین کے حالات زندگی تحریر کریں۔ مصابیح السنۃ اور مشکوۃ المصابیح میں بنیادی فرق بیان کریں۔

مصابیح السنۃ کے مصنف کا تعارف:

مصابیح السنۃ کے مصنف امام ابو محمد حسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی (متوفی 510ھ) تھے۔ آپ کا تعلق خراسان کے شہر “بغ” سے تھا، اسی نسبت سے آپ کو “بغوی” کہا جاتا ہے۔ آپ نہایت متقی، پرہیزگار، اور علم حدیث کے عظیم محدث و فقیہ تھے۔ آپ نے اپنی مشہور حدیث کی کتاب “مصابیح السنۃ” میں احادیث کو دو اقسام میں تقسیم کیا: صحاح (صحیح احادیث) اور حسن احادیث۔ آپ نے اس کتاب میں صرف سند کے بغیر احادیث نقل کیں اور ان کے ذیل میں ابواب قائم کیے۔

مشکوۃ المصابیح کے مصنف کا تعارف:

مشکوۃ المصابیح کے مؤلف امام ولی الدین محمد بن عبداللہ خطیب تبریزی (متوفی 741ھ) ہیں۔ آپ علم حدیث کے مشہور محقق اور مرتب تھے۔ آپ نے امام بغوی کی مصابیح السنۃ پر مزید کام کرتے ہوئے اسے نہ صرف بہتر انداز میں ترتیب دیا بلکہ احادیث کی سند بھی شامل کی، مزید احادیث کا اضافہ کیا اور اسے “مشکوۃ المصابیح” کے نام سے پیش کیا۔ آپ نے اس کتاب کو فقہی ترتیب سے مرتب کیا اور احادیث کو تین اقسام میں تقسیم کیا: صحیح، حسن اور ضعیف۔

مصابیح السنۃ اور مشکوۃ المصابیح میں بنیادی فرق:
  • مصنفین: مصابیح السنۃ کے مصنف امام بغوی اور مشکوۃ المصابیح کے مصنف خطیب تبریزی ہیں۔
  • ترتیب و تکمیل: مشکوۃ المصابیح دراصل مصابیح السنۃ کی ترمیم و تکمیل ہے جس میں نئی احادیث شامل کی گئیں۔
  • احادیث کی اقسام: مصابیح السنۃ میں احادیث کو دو اقسام (صحیح اور حسن) میں تقسیم کیا گیا، جبکہ مشکوۃ المصابیح میں تین اقسام (صحیح، حسن اور ضعیف) رکھی گئیں۔
  • اسناد کا اضافہ: مصابیح السنۃ میں سند کا ذکر نہیں تھا جبکہ مشکوۃ المصابیح میں سند شامل کی گئی۔
  • قبول عام: مشکوۃ المصابیح کو مدارسِ دینیہ اور محدثین کے ہاں زیادہ قبولیت حاصل ہوئی کیونکہ یہ زیادہ جامع اور مفصل ہے۔

نتیجہ:
مصابیح السنۃ اور مشکوۃ المصابیح دونوں حدیث کی عظیم کتب ہیں۔ امام بغوی کی اصل کاوش کو خطیب تبریزی نے مزید بہتر اور جامع بنا کر علم حدیث میں اہم اضافہ کیا۔ مشکوۃ المصابیح آج بھی مدارس میں بطور نصاب شامل ہے اور محدثین کے نزدیک ایک قابلِ اعتماد مجموعہ ہے۔

سوال نمبر 2:

حدیث جبرئیل کی روشنی میں ایمان، اسلام اور احسان کا فرق واضح کیجئے۔

حدیثِ جبرئیل کا تعارف:

حدیث جبرئیل کو “ام السنۃ” یعنی سنت کی بنیاد کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں دین اسلام کے تین بنیادی ستون — اسلام، ایمان اور احسان — کو جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس حدیث کو حضرت عمر بن خطابؓ نے روایت کیا ہے کہ ایک دن جب ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے تو ایک اجنبی شخص انتہائی سفید کپڑوں اور کالے بالوں کے ساتھ آیا، جس پر سفر کا کوئی اثر نہیں تھا۔ اس نے رسول اللہ ﷺ سے تین سوال کیے: اسلام کیا ہے؟ ایمان کیا ہے؟ احسان کیا ہے؟ اور ہر سوال کے بعد آپ ﷺ نے مفصل جواب دیا۔ آخر میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “یہ جبرئیل تھے، جو تمہیں دین سکھانے آئے تھے۔”

1. اسلام کا مفہوم:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، رمضان کے روزے رکھو، اور بیت اللہ کا حج کرو اگر استطاعت ہو۔”

اسلام کے پانچ ارکان:
  • کلمۂ شہادت: دل سے اقرار اور زبان سے تصدیق کہ اللہ واحد ہے اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں۔
  • نماز: اللہ کے ساتھ تعلق کا سب سے مضبوط ذریعہ اور عملی عبادت کی بنیاد۔
  • زکوٰۃ: مال کی طہارت اور سماجی مساوات کا ضامن۔
  • روزہ: نفس کی تربیت، صبر، تقویٰ اور اللہ کی قربت کا ذریعہ۔
  • حج: روحانی تجدید اور امتِ مسلمہ کے اتحاد کی عظیم مثال۔

اسلام کا دائرہ: اسلام ظاہری اعمال کا مجموعہ ہے، جن کا مشاہدہ دیگر لوگ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ دین کا ظاہر ہے، یعنی وہ چیزیں جو جسمانی طور پر ادا کی جاتی ہیں۔

2. ایمان کا مفہوم:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور تقدیر پر ایمان رکھو، خواہ وہ اچھی ہو یا بری۔”

ایمان کے چھ ارکان:
  • اللہ پر ایمان: اس کے وجود، صفات، الوہیت اور ربوبیت کو دل سے ماننا۔
  • فرشتوں پر ایمان: اللہ کے نورانی مخلوق جو اس کے احکام بجا لاتے ہیں جیسے جبرئیل، میکائیل، اسرافیل و دیگر۔
  • الہامی کتابوں پر ایمان: تورات، زبور، انجیل، اور قرآن مجید کو ان کی اصل صورت میں تسلیم کرنا۔
  • رسولوں پر ایمان: تمام انبیاء کرام پر ایمان، خاص طور پر خاتم النبیین محمد ﷺ پر۔
  • آخرت پر ایمان: مرنے کے بعد زندگی، حساب و کتاب، جنت و جہنم کو ماننا۔
  • تقدیر پر ایمان: ہر نفع و نقصان، خیر و شر اللہ کے علم اور ارادے سے ہوتا ہے۔

ایمان کا دائرہ: ایمان دل کا عمل ہے، یعنی وہ عقائد جو دل میں ہوتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ انسان خود کرتا ہے، دوسرا شخص اس کو نہیں دیکھ سکتا۔ ایمان دین کا باطن ہے۔

3. احسان کا مفہوم:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت ایسے کرو گویا کہ تم اُسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ سکتے تو وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔”

احسان کی اقسام:
  • عبادت میں احسان: اخلاص، خشوع و خضوع، اور دل کی حضوری کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا۔
  • معاملات میں احسان: لوگوں کے ساتھ بھلائی، اخلاق، عدل، سخاوت اور رحم دلی کا مظاہرہ۔
  • احسان کا مقام: یہ دین کا اعلیٰ ترین درجہ ہے، جہاں انسان عبادت اور معاملات میں اللہ کی ہمیشگی کا شعور رکھتا ہے۔

احسان کا دائرہ: یہ دل کی کیفیت اور روحانی شعور کا نام ہے، جس کا تعلق اللہ سے قربت اور تقویٰ کی اعلیٰ ترین سطح سے ہے۔ یہ دین کا “روح” اور سب سے بلند درجہ ہے۔

اسلام، ایمان اور احسان کا باہمی تعلق:
  • اسلام: ظاہری اعمال یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ۔
  • ایمان: باطنی عقائد جیسے توحید، رسالت، آخرت وغیرہ۔
  • احسان: اللہ کی ہمیشگی کا شعور اور اس کے ساتھ تعلق کی گہرائی۔

جیسے ایک درخت کے تنے، جڑیں اور خوشبو ہوتے ہیں، ویسے ہی اسلام (تنا)، ایمان (جڑ) اور احسان (خوشبو) ہیں۔ تینوں مل کر دینِ کامل بنتے ہیں۔

نتیجہ:
حدیث جبرئیل نہایت جامع اور بامعنی حدیث ہے، جس نے دین کی ظاہری، باطنی اور روحانی حیثیتوں کو واضح کر دیا۔ اسلام، ایمان اور احسان دین کے تین ستون ہیں جن کے بغیر انسان کا دینی وجود نامکمل ہے۔ اسلام عمل کا نام ہے، ایمان یقین کا، اور احسان اخلاص اور تعلق کا۔ جو شخص ان تینوں کو اپنی زندگی میں اختیار کرے، وہ کامل مومن و مسلمان ہوتا ہے۔

سوال نمبر 3:

باب اعتصام بالكتاب والسنہ کی روشنی میں کتاب اللہ اور سنت نبوی ﷺ کی اہمیت پر مدلل مضمون تحریر کیجئے۔

مقدمہ:

دین اسلام کی بنیاد دو عظیم سرچشموں پر قائم ہے: کتاب اللہ (قرآن مجید) اور سنت نبوی ﷺ۔ یہی دونوں راہِ ہدایت کے چراغ ہیں، جو انسان کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھتے ہیں۔ “باب اعتصام بالکتاب والسنہ” صحیح بخاری اور دیگر کتبِ حدیث میں اس بات پر زور دیتا ہے کہ نجات کی واحد راہ اللہ کی کتاب اور رسول ﷺ کی سنت کی پیروی میں ہے۔ ان سے وابستگی ہی دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز ہے۔

قرآن کریم کی اہمیت:

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا آخری اور مکمل پیغام ہے جو قیامت تک کے لیے تمام انسانیت کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
“إِنَّ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانَ يَهْدِى لِلَّتِى هِىَ أَقْوَمُ” (سورہ الاسراء: 9)
ترجمہ: “بے شک یہ قرآن اس راستے کی رہنمائی کرتا ہے جو سب سے سیدھا ہے۔”

قرآن نہ صرف عقائد، عبادات اور اخلاقیات کی تعلیم دیتا ہے بلکہ انسان کی انفرادی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی زندگی کے ہر پہلو کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔

سنت نبوی ﷺ کی اہمیت:

سنتِ رسول ﷺ قرآن کا عملی نمونہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ہر قول، فعل اور عمل قرآن کی تفسیر ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
“كان خلقه القرآن” (مسند احمد)
ترجمہ: “آپ ﷺ کا اخلاق قرآن ہی تھا۔”

رسول اللہ ﷺ نے دین اسلام کو صرف الفاظ میں نہیں بلکہ عمل میں لا کر دکھایا، تاکہ انسانوں کو دین کا عملی چہرہ میسر آئے۔ سنت کے بغیر قرآن کی صحیح تفہیم ممکن نہیں۔

باب اعتصام بالکتاب والسنۃ کا مفہوم:

“اعتصام” کے معنی ہیں مضبوطی سے تھامنا۔ اس باب میں حدیث نبوی ﷺ بیان کرتی ہے:
“ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بہما: کتاب اللہ وسنتی”
ترجمہ: “میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم انہیں مضبوطی سے تھامے رہو گے، ہرگز گمراہ نہ ہو گے: اللہ کی کتاب اور میری سنت۔”

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ قرآن و سنت کو تھامے بغیر دین پر قائم رہنا ممکن نہیں۔ یہی دو سرچشمے حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔

قرآن و سنت سے روگردانی کا انجام:

جب امت مسلمہ نے قرآن اور سنت سے دوری اختیار کی تو زوال، تفرقہ، بدعات، گمراہی، اور اخلاقی انحطاط ان کا مقدر بن گیا۔ اسبابِ زوال میں سب سے بڑا سبب دین کے اصل مآخذ سے دوری ہے۔ آج امت کی بحالی کا واحد راستہ قرآن و سنت کی طرف واپسی ہے۔

امت کے اتحاد کی بنیاد:

امتِ مسلمہ کو فرقہ واریت، انتہا پسندی، اور باہمی نفرت سے نکالنے کا حل بھی یہی ہے کہ ہم سب کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کو مشترکہ بنیاد مان کر متحد ہو جائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
“وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا” (آل عمران: 103)
ترجمہ: “اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رکھو اور فرقہ فرقہ نہ بنو۔”


نتیجہ:
کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ دین اسلام کے دو مضبوط ستون ہیں جن کے بغیر نہ ایمان مکمل ہو سکتا ہے، نہ عمل درست، نہ معاشرہ فلاح پا سکتا ہے، اور نہ آخرت میں نجات ممکن ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں سے مضبوطی سے وابستہ رہے، ان کی تعلیمات کو سمجھے، ان پر عمل کرے، اور انہیں اپنی زندگی کا دستور بنائے۔ کیونکہ یہی اعتصام بالکتاب والسنہ ہے — جو نجات کا ضامن ہے۔

سوال نمبر 4:

مشکوٰۃ المصابیح میں بیان کردہ احادیث کی روشنی میں اذان اور سترہ سے تفصیلی احکام قلمبند کریں۔

مقدمہ:

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں عبادات کے ہر ہر پہلو کے احکام تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں **اذان** اور **سترہ** کے احکام کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ **مشکوٰۃ المصابیح** میں متعدد احادیث ایسی وارد ہوئی ہیں جن سے ان احکام کی اہمیت، فضیلت، حکمت اور طریقہ کار کا واضح علم حاصل ہوتا ہے۔ آئیے ان پر تفصیل سے نظر ڈالتے ہیں۔

اذان کے احکام اور فضیلت:

اذان نماز کی دعوت اور اسلامی شعائر میں سے ایک اہم شعار ہے۔ مشکوٰۃ المصابیح میں مختلف ابواب کے تحت اذان کی فضیلت و احکام پر مشتمل احادیث مذکور ہیں:

1. **فضیلتِ مؤذن**:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«المؤذنون أطول الناس أعناقاً يوم القيامة» (مشکوٰۃ)
ترجمہ: “قیامت کے دن مؤذن سب سے لمبی گردنوں والے ہوں گے۔”
مطلب یہ ہے کہ مؤذن قیامت میں شناخت اور عزت میں نمایاں ہوں گے۔

2. **اذان کی آواز کے اثرات**:
حدیث میں آیا ہے:
“جب مؤذن اذان دیتا ہے تو ہر چیز جو اذان کی آواز سنتی ہے، وہ قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دے گی۔” (مشکوٰۃ)

3. **اذان کا جواب دینا**:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول»
ترجمہ: “جب مؤذن کو اذان دیتے سنو تو وہی کہو جو وہ کہتا ہے۔”
یہ جواب دینا موجبِ اجر و ثواب ہے۔

4. **اقامت اور اذان میں فرق**:
اقامت نماز کے قریب اور مختصر اعلان ہے، جب کہ اذان عام دعوت ہے۔ دونوں کے الفاظ اور حکمتوں میں فرق بیان کیا گیا ہے۔

5. **اذان کا وقت**:
ہر نماز کے وقت پر اذان دی جائے۔ فجر کی اذان میں “الصلاة خير من النوم” کے الفاظ کی تخصیص مشکوٰۃ میں مذکور ہے۔

سترہ کے احکام:

سترہ سے مراد وہ چیز ہے جسے نمازی اپنے سامنے رکھے تاکہ اس کے اور گزرنے والے کے درمیان حد فاصل ہو۔ مشکوٰۃ المصابیح میں سترہ کے متعلق کئی احادیث وارد ہوئی ہیں:

1. **سترہ رکھنا سنت ہے**:
رسول اللہ ﷺ کا عمل تھا کہ آپ سترہ کے بغیر نماز نہیں پڑھتے تھے۔ فرمایا:
“إذا صلَّى أحدُكم فليُصَلِّ إلى سُترةٍ، و ليدنُ منها…”
ترجمہ: “جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو سترہ کی طرف نماز پڑھے اور اس کے قریب ہو۔” (مشکوٰۃ)

2. **سترہ نہ ہونے کی صورت میں گزرنے سے ممانعت:**
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“لَو يَعلَمُ المارُّ بين يدي المصلي ماذا عليه لكان أن يقفَ أربعين خيرًا له من أن يمرَّ بين يديه”
ترجمہ: “اگر گزرنے والا جان لے کہ نمازی کے سامنے سے گزرنے کا کتنا گناہ ہے، تو وہ چالیس (سال/دن/گھڑیاں) تک کھڑا رہنا بہتر سمجھے، بنسبت اس کے کہ وہ گزرے۔” (مشکوٰۃ)

3. **سترہ کی مقدار:**
حدیث میں آیا کہ سترہ کی اونچائی کم از کم ایک ہاتھ یا نیزہ کے برابر ہو۔ یہ ایسی چیز ہو کہ نظر آسکے اور رکاوٹ بنے۔

4. **صفوں میں سترہ کا حکم:**
اگر امام نے سترہ رکھا ہو تو مقتدیوں کے لیے الگ سترہ ضروری نہیں۔ ان کے لیے امام کا سترہ کافی ہے۔

5. **اگر سترہ نہ ہو تو:**
اگر سترہ میسر نہ ہو تو نمازی کسی دیوار، ستون یا اپنی جائے نماز کے کنارے کو ہی سترہ بنائے۔

نتیجہ:
مشکوٰۃ المصابیح میں اذان اور سترہ کے جو احکام بیان کیے گئے ہیں، وہ دین کی باریکیوں اور عبادات کی حفاظت کا مکمل نظام پیش کرتے ہیں۔ اذان، اسلامی شعار اور نماز کی دعوت ہے، جبکہ سترہ نماز کی حفاظت اور خشوع کو قائم رکھنے کا ذریعہ ہے۔ ہر مسلمان کو ان احادیث کی روشنی میں نہ صرف ان احکام پر عمل کرنا چاہیے بلکہ دوسروں کو بھی ان کی اہمیت سے آگاہ کرنا چاہیے تاکہ نماز جیسے عظیم فریضے کو اس کی اصل روح کے ساتھ ادا کیا جا سکے۔

سوال نمبر 5:

احادیث کی روشنی میں علامات نفاق اور گناہ کبیرہ کی وضاحت کیجئے۔

مقدمہ:

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو انسان کے ظاہر و باطن کی اصلاح کا خواہاں ہے۔ قرآن و سنت میں ایمان کی علامات بھی بیان کی گئی ہیں اور نفاق و گناہوں سے خبردار بھی کیا گیا ہے۔ **نفاق** وہ مرض ہے جو انسان کے دل کو تباہ کر دیتا ہے، اور **گناہ کبیرہ** ایسے اعمال ہیں جو ایمان کو کمزور کرتے ہیں اور انسان کو ہلاکت کے قریب لے جاتے ہیں۔ ذیل میں ہم ان کی تفصیل احادیث کی روشنی میں بیان کرتے ہیں۔

1. علامات نفاق (منافق کی نشانیاں):

نفاق کی دو اقسام ہیں: – **نفاق اعتقادی**: کفر کی ایک قسم ہے، جو انسان کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔ – **نفاق عملی**: وہ برائیاں جن میں مومن مبتلا ہو سکتا ہے، لیکن وہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا، البتہ اس کے ایمان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ» (صحیح بخاری و مسلم، مشکوٰۃ المصابیح)
ترجمہ: “منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرے۔”

ایک اور حدیث میں چوتھی نشانی کا بھی ذکر ہے:
«وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ»
ترجمہ: “اور جب جھگڑا کرے تو حد سے تجاوز کرے۔”

یہ علامات کسی بھی انسان میں ہوں تو وہ **عملی نفاق** میں مبتلا سمجھا جاتا ہے، جو نہایت خطرناک کیفیت ہے۔

2. گناہ کبیرہ کی وضاحت:

گناہ کبیرہ وہ بڑے گناہ ہیں جن پر قرآن و سنت میں شدید وعید آئی ہے۔ ان کے متعلق مختلف احادیث میں وضاحت موجود ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«اجتنبوا السبع الموبقات» (صحیح بخاری و مسلم)
ترجمہ: “سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔”

صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کون سے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
1. اللہ کے ساتھ شرک کرنا 2. جادو کرنا 3. ناحق قتل کرنا 4. سود کھانا 5. یتیم کا مال کھانا 6. جنگ کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگنا 7. پاک دامن عورتوں پر زنا کی جھوٹی تہمت لگانا

مزید گناہ کبیرہ احادیث کی روشنی میں:
– والدین کی نافرمانی
– جھوٹی گواہی دینا
– شراب نوشی
– زنا کرنا
– چوری کرنا
– رشوت لینا دینا
– جھوٹ بولنا
– نماز چھوڑنا

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا: کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ فرمایا: “نماز اپنے وقت پر پڑھنا”۔ پھر پوچھا: اس کے بعد؟ فرمایا: “والدین سے حسن سلوک”۔ پھر پوچھا: اس کے بعد؟ فرمایا: “اللہ کی راہ میں جہاد۔” (بخاری)

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ **گناہوں کی شدت اور درجات ہوتے ہیں**، اور کبائر کا مرتکب اگر توبہ نہ کرے تو سخت عذاب میں مبتلا ہو سکتا ہے۔

نتیجہ:
احادیث کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ نفاق کی علامات اگر کسی انسان میں پائی جائیں تو وہ دین کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، اور گناہ کبیرہ انسان کی دنیا و آخرت برباد کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنے دل و عمل کا جائزہ لیتے رہیں، صدقِ دل سے توبہ کریں اور نفاق و کبائر سے بچنے کی بھرپور کوشش کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جا سکے۔

سوال نمبر 6:

نماز کے اوقات اور مساجد کے احکام، اہمیت و فضائل کو حدیث نبوی ﷺ کی روشنی میں بیان کیجئے۔

مقدمہ:

نماز دین اسلام کا ستون ہے، جو انسان کو فلاح، کامیابی اور اللہ کی قربت عطا کرتی ہے۔ اس کی ادائیگی کے لیے شریعت نے **مقررہ اوقات** اور **مساجد کے آداب و احکام** متعین کیے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے نہ صرف نماز کے فضائل بیان فرمائے بلکہ عملی طور پر اس کی پابندی بھی کی۔

1. نماز کے اوقات:

قرآن و حدیث میں نماز کے پانچ اوقات کی وضاحت کی گئی ہے:– **فجر**: صبح صادق سے طلوع آفتاب تک – **ظہر**: سورج کے ڈھلنے کے بعد سے عصر تک – **عصر**: ظہر کے بعد سے سورج کے زرد ہونے تک – **مغرب**: سورج غروب ہونے کے بعد سے شفق ختم ہونے تک – **عشاء**: شفق ختم ہونے سے نصف رات تکحضرت جبرائیل علیہ السلام نے نبی ﷺ کو دو دن نماز پڑھا کر اس کے اوقات کی تعلیم دی۔ (سنن ترمذی)نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«إنَّ أوَّلَ ما يُحاسَبُ بهِ العبدُ يومَ القيامةِ من عملِه صلاتُه» (سنن ابی داود)
ترجمہ: “قیامت کے دن سب سے پہلے انسان سے اس کے عمل میں نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا۔”

2. نماز کے فضائل احادیث کی روشنی میں:

– حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«أرأيتم لو أن نَهَراً ببابِ أحدِكم يغتسلُ فيه كلَّ يومٍ خمسَ مراتٍ، هل يبقى من درنِه شيءٌ؟»
صحابہ نے کہا: نہیں! فرمایا: “یہ پانچ نمازوں کی مثال ہے، اللہ ان کے ذریعے گناہ مٹا دیتا ہے۔” (صحیح بخاری و مسلم)– رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«الصلاةُ نورٌ» ترجمہ: “نماز نور ہے۔” (صحیح مسلم)

– رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«بينَ الرَّجلِ وبينَ الشِّركِ والكُفرِ ترْكُ الصَّلاةِ» (صحیح مسلم)
ترجمہ: “آدمی اور کفر و شرک کے درمیان حد نماز ہے، جس نے نماز چھوڑ دی، وہ کفر کے قریب ہو گیا۔”

3. مساجد کے احکام اور ان کی اہمیت:

– مسجد اللہ کا گھر ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«أحبُّ البلادِ إلى اللهِ مساجدُها» (صحیح مسلم)
ترجمہ: “اللہ کو سب سے زیادہ محبوب جگہیں مساجد ہیں۔”– باجماعت نماز کے بارے میں فرمایا:
«صلاةُ الجماعةِ تَفضُلُ صلاةَ الفَذِّ بسبعٍ وعشرينَ دَرجةً» (صحیح بخاری و مسلم)
ترجمہ: “باجماعت نماز تنہا نماز پر 27 درجے فضیلت رکھتی ہے۔”– مسجد میں داخل ہوتے وقت دعا، دایاں پاؤں رکھنا، اور ادب سے بیٹھنا مستحب ہے۔ آواز بلند کرنا، دنیاوی باتیں کرنا اور ناپاکی کی حالت میں داخل ہونا منع ہے۔

4. مسجد میں جانے کی فضیلت:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
«من غدا إلى المسجدِ أو راحَ أعدَّ اللهُ له في الجنةِ نُزُلًا كلما غدا أو راحَ» (صحیح بخاری و مسلم)
ترجمہ: “جو شخص صبح یا شام مسجد جاتا ہے، اللہ اس کے لیے جنت میں مہمانی کا انتظام کرتا ہے، جتنی بار جائے۔”

نتیجہ:
نماز اللہ کی رضا اور دنیا و آخرت کی فلاح کا ذریعہ ہے۔ اس کی پابندی، وقت کی ادائیگی اور مسجد کی حاضری ایک مسلمان کے ایمان کی علامت ہے۔ نبی کریم ﷺ کی احادیث اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ نماز و مسجد کی قدر و حرمت انسان کی روحانی ترقی اور جنت کے حصول کا سبب ہے۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ نماز کو اہمیت دے، اسے وقت پر ادا کرے، اور مساجد کی آبادکاری میں حصہ لے۔

سوال نمبر 7:

درود شریف کے فضائل و برکات اور آدابِ جمعہ کو احادیث کی روشنی میں بیان کیجئے۔

مقدمہ:

درود شریف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے جس کے ذریعے انسان کو دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنا ہر مسلمان کی محبت، عقیدت اور ایمان کی علامت ہے۔ جمعہ کا دن، ہفتے کا سب سے افضل دن ہے، جس میں درود بھیجنے، ذکر الٰہی اور عبادات کا خاص اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

1. درود شریف کے فضائل و برکات:

– نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«من صلّى عليّ صلاةً واحدةً صلّى الله عليه بها عشرًا» (صحیح مسلم)
ترجمہ: “جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔”– حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إنَّ أقربَكم منِّي يومَ القيامةِ أكثرُكم عليَّ صلاةً» (سنن ترمذی)
ترجمہ: “قیامت کے دن میرے سب سے قریب وہ شخص ہو گا جو دنیا میں مجھ پر زیادہ درود بھیجا کرتا تھا۔”– درود شریف گناہوں کی مغفرت، درجات کی بلندی، دل کے سکون اور برکت کا ذریعہ ہے۔– درود شریف قیامت کے دن شفاعت کا ذریعہ بنے گا۔

2. جمعہ کے دن درود بھیجنے کی فضیلت:

– نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«أكثروا عليّ من الصلاةِ يومَ الجمعةِ وليلةَ الجمعةِ، فإنَّ صلاتَكم معروضةٌ عليّ» (سنن ابی داود)
ترجمہ: “جمعہ کے دن اور رات مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔”– ایک اور روایت میں فرمایا:
«إنَّ مِن أفضلِ أيامِكم يومَ الجمعةِ، فيه خُلق آدمُ، وفيه النفخةُ، وفيه الصعقةُ، فأكثِروا عليّ من الصلاةِ فيه» (سنن ابی داود)
ترجمہ: “جمعہ کا دن تمہارے دنوں میں سب سے افضل ہے… اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجو۔”

3. آدابِ جمعہ:

جمعہ کے دن کے کچھ اہم آداب احادیث نبوی ﷺ سے ثابت ہیں:– غسل کرنا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«غُسلُ يومِ الجمعةِ واجبٌ على كلِّ محتلمٍ» (صحیح بخاری)
ترجمہ: “جمعہ کے دن غسل کرنا ہر بالغ مسلمان پر واجب ہے۔”– خوشبو لگانا، صاف کپڑے پہننا، اور مسجد جلدی جانا سنت ہے۔– سورۃ الکہف کی تلاوت کرنا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«من قرأ سورةَ الكهفِ في يومِ الجمعةِ أضاء له من النورِ ما بين الجمعتينِ» (صحیح الحاکم)
ترجمہ: “جو شخص جمعہ کے دن سورۃ الکہف پڑھے، اس کے لیے دو جمعوں کے درمیان نور روشن ہو جاتا ہے۔”– امام کے خطبہ کے وقت خاموشی اختیار کرنا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«إذا قلتَ لصاحبِك يومَ الجمعةِ أنصِتْ والإمامُ يخطبُ فقد لَغَوتَ» (صحیح بخاری و مسلم)
ترجمہ: “اگر جمعہ کے دن امام کے خطبے کے دوران تم اپنے ساتھی سے کہو ‘خاموش رہو’ تو بھی تم نے لغو بات کی۔”

4. جمعہ کے دن کی دعا:

– رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«فيه ساعةٌ لا يُوافقُها عبدٌ مسلمٌ وهو قائمٌ يُصلي يسألُ اللهَ شيئًا إلا أعطاه إيَّاه» (صحیح بخاری و مسلم)
ترجمہ: “جمعہ کے دن ایک ایسی ساعت (وقت) ہے، جس میں اگر کوئی مسلمان بندہ دعا مانگے تو اللہ اسے ضرور عطا کرتا ہے۔”

نتیجہ:
درود شریف نہ صرف نبی کریم ﷺ سے محبت کا اظہار ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ جمعہ کے دن کو عبادت، ذکر، درود اور قرآن کے لیے مخصوص کرنا سنت نبوی ہے۔ درود شریف کی کثرت، جمعہ کے آداب کی پابندی، اور نمازِ جمعہ میں شرکت انسان کی روحانی ترقی اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔

سوال نمبر 8:

احادیث کی روشنی میں علامات نفاق اور تقدیر پر نوٹ تحریر کیجئے۔ نیز وضو اور غسل کے مسائل احادیث کی روشنی میں بیان کیجئے۔

1. علامات نفاق:

نفاق اسلام میں بڑا گناہ اور خطرناک وصف ہے۔ نبی کریم ﷺ نے منافقین کی تین بنیادی علامات بیان فرمائی ہیں جو صداقت کا پتہ دیتی ہیں:– «إذا حدَّث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان» (صحیح بخاری و مسلم)
ترجمہ: “جب منافق بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرتا ہے، اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرتا ہے۔”– ایک اور حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا:
«خصلتان في من دخل الجنة لم يدخل النار: الرفق والحياء» (سنن الترمذی)
ترجمہ: “دو خوبیوں کی بنا پر جنت میں جانے والا کبھی دوزخ میں نہیں جائے گا، وہ ہیں نرمی اور حیاء؛ جبکہ نفاق کے برعکس، منافقین میں ان کا فقدان ہوتا ہے۔”منافق کی علامات کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ جھوٹا، وعدہ خلاف، اور امانت میں خیانت کرنے والا ہوتا ہے۔

2. تقدیر:

تقدیر اللہ کی حکمت، علم اور قدرت کا مظہر ہے۔ اسلام میں تقدیر پر ایمان ایمان کے ارکان میں شامل ہے۔– نبی ﷺ نے فرمایا:
«الإيمان أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله وتؤمن بالقدر خيره وشره» (صحیح مسلم)
ترجمہ: “ایمان یہ ہے کہ اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ، اور تقدیر کے اچھے اور برے دونوں پہلوؤں پر ایمان رکھو۔”– ایک حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا:
«ما من عبد يصيبُه أذى فيقول: إنا لله وإنا إليه راجعون، اللهم أجرني في مصيبتي واخلف لي خيرًا منها إلا أجره الله في مصيبته وخلف له خيرًا منها» (سنن الترمذی)
ترجمہ: “جو شخص مصیبت میں کہے کہ ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، اللہ اس کی مصیبت میں اجر دیتا ہے اور اس کے لیے بہتر چیز عطا فرماتا ہے۔”تقدیر پر ایمان رکھنے والا ہر حال میں صبر اور رضا اختیار کرتا ہے۔

3. وضو کے مسائل:

وضو طہارت کا ذریعہ ہے، جس کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی۔– نبی ﷺ نے فرمایا:
«لا يقبل الله صلاة أحدكم إذا أحدث حتى يتوضأ» (صحیح مسلم)
ترجمہ: “جب تک وضو نہ کرے اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کی نماز قبول نہیں فرماتا۔”– وضو کے ارکان میں ہاتھ دھونا، منہ دھونا، سر کا مسح کرنا، پاؤں دھونا شامل ہیں۔– وضو ٹوٹنے کی علامات میں پیشاب، پاخانہ، نیند کا غلبہ، بے ہوشی، خون آنا، اور بدبو شامل ہیں۔

4. غسل کے مسائل:

غسل جنابت، حیض، نفاس، یا کسی بڑی نجاست کے بعد فرض ہوتا ہے۔– نبی ﷺ نے فرمایا:
«الطهور شطر الإيمان» (صحیح مسلم)
ترجمہ: “طہارت ایمان کا نصف حصہ ہے۔”– جنابت کی حالت میں غسل کرنا فرض ہے: «لا صلاة لجنب إلا طهُر» (صحیح مسلم)
ترجمہ: “جناب کی حالت میں کوئی نماز قبول نہیں جب تک کہ وہ غسل نہ کرے۔”– غسل کے ارکان میں پورے جسم کو دھونا شامل ہے، خاص طور پر سر اور کانوں کا مسح کرنا۔– غسل کی فضیلت کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا:
«من غسل يوم الجمعة غسل الجنابة ثم راح إلى المسجد … كتب له أجر صيام سنة وقيامها» (سنن ابن ماجہ)
ترجمہ: “جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے، غسل جنابت کرے اور پھر مسجد جائے … اللہ اسے ایک سال کے روزے اور قیام کا ثواب دیتا ہے۔”

نتیجہ:
علامات نفاق انسان کی باطنی کمزوریوں کی نشاندہی کرتی ہیں اور اسے بچنا چاہیے۔ تقدیر پر ایمان رکھنا صبر اور اللہ کی رضا کے لیے ضروری ہے۔ وضو اور غسل اسلام میں طہارت کی بنیاد ہیں، جو عبادات کی قبولیت کے لیے شرط ہیں۔ احادیث کی روشنی میں ان امور پر عمل کرنا ہر مومن کے لیے لازم ہے تاکہ وہ دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرے۔

سوال نمبر 9:

مشکوۃ المصابیح میں بیان کردہ احادیث کی روشنی میں مسافر کی نماز اور نماز عیدین کے احکام تفصیل سے بیان کریں۔

1. مسافر کی نماز کے احکام:

اسلام میں مسافر کی نماز کے لیے آسانیاں اور خاص احکام موجود ہیں تاکہ سفر کی مشقت میں عبادت آسان ہو جائے۔– مسافر کی نماز میں رکعتیں کم کرنا (قصّر کرنا): نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«إذا سافر أحدكم فاصغر الصلاة أربع ركعات» (مشکوۃ المصابیح)
ترجمہ: “جب تم میں سے کوئی سفر کرے تو نماز کو چار رکعتوں تک کم کر دے۔” یعنی فرض نمازیں جو چار یا چار سے زائد رکعتوں کی ہوں، مسافر چار رکعتیں ادا کرے، مثلاً دو رکعتیں فرض نماز ظہر، عصر اور عشاء کی، اور نماز فجر اور مغرب دو دو رکعتیں رہتی ہیں۔– قصر نماز کا حد فاصل: سفر کی حد عموماً تقریباً 81 کلومیٹر یا تین دن کا سفر مانا جاتا ہے، اس سے کم فاصلے پر قصر نماز واجب نہیں۔– جمع کرنا (جمع بین الصلاتین): مسافر کو اجازت ہے کہ وہ ظہر اور عصر، یا مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر لے:
«يسّره الله عليكم، تصلون الظهر والعصر جمعًا، والمغرب والعشاء جمعًا» (مشکوۃ المصابیح)
ترجمہ: “اللہ نے تم پر آسانی فرمائی ہے کہ تم ظہر اور عصر، اور مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر سکو۔”– سفر کے دوران نماز پڑھنے کا مقام: مسافر کو چاہیے کہ جہاں آرام دہ ہو وہاں نماز ادا کرے، لیکن مسجد میں بھی پڑھ سکتا ہے۔

2. نماز عیدین کے احکام:

نماز عید الفطر اور عید الاضحی دونوں عیدین کی نمازیں خاص فضیلت اور احکام کی حامل ہیں۔– نماز عیدین کی فرضیت: نماز عیدین فرض نہیں بلکہ واجب یا سنت موکدہ ہے، جس کی ادائیگی پر تاکید کی گئی ہے۔– عیدین کی نماز میں سنت اور واجب اجزاء: نماز عیدین دو رکعت ہوتی ہے، جس میں ہر رکعت میں سات تکبیریں پڑھی جاتی ہیں:
«كان رسول الله ﷺ يكثر التكبير في العيد» (مشکوۃ المصابیح)
ترجمہ: “رسول اللہ ﷺ عیدین میں تکبیرات کثرت سے پڑھتے تھے۔”– نماز عیدین کا وقت: نماز عیدین عید کے دن صبح صادق کے بعد پڑھنی چاہیے اور وقت عام طور پر صبح کے آٹھ یا دس بجے تک محدود ہے:
«صلاة العيدين من وقت طلوع الشمس إلى زوالها» (مشکوۃ المصابیح)
ترجمہ: “عیدین کی نماز سورج نکلنے سے لے کر دوپہر تک پڑھی جاتی ہے۔”– عیدین کی نماز کے بعد خطبہ: نماز کے بعد خطبہ دینا سنت ہے، جس میں اللہ کی حمد و ثنا اور عید کی خوشیاں بیان کی جاتی ہیں۔– عیدین کی نماز میں اجتماعی نماز کی فضیلت: اجتماع میں عیدین کی نماز کا انعقاد افضل ہے تاکہ امت کا اتحاد اور بھائی چارہ ظاہر ہو۔

نتیجہ:
مشکوۃ المصابیح کی احادیث کی روشنی میں مسافر کی نماز میں آسانی اور سہولت کے لیے رکعتوں میں کمی اور نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت ہے۔ نماز عیدین خاص مواقع پر ادا کی جاتی ہے جس میں تکبیریں بڑھائی جاتی ہیں، اور اس کی نماز کا وقت خاص طور پر مقرر ہے۔ دونوں صورتوں میں اللہ کی رضا اور بندگی کی عمدہ مثالیں ملتی ہیں، جن پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔

سوال نمبر 10:

درج ذیل موضوعات پر حدیث نبوی ﷺ کی روشنی میں نوٹ قلم بند کریں:

  1. بغیر علم کے فتوی دینا
  2. ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کر دینا
1۔ بغیر علم کے فتوی دینا:

اسلام میں علم کی بہت زیادہ قدر ہے اور فتوی دینا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جس کے لیے گہرا علم و فہم لازم ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بغیر علم کے فتوی دینے کو شدید ناپسند فرمایا ہے کیونکہ اس سے بہت سی غلطیاں اور فتنہ پیدا ہو سکتا ہے۔– نبی ﷺ نے فرمایا:
«من فتنى الناس بغير علمٍ كان عليه من النارِ أقربُ» (سنن النسائي)
ترجمہ: “جو شخص بغیر علم کے لوگوں کو فتوی دے وہ جہنم کے قریب تر ہے۔”– ایک اور حدیث میں فرمایا:
«إذا حكم الحاكم فاجتهد فصاب فله أجران، وإذا اجتهد فأخطأ فله أجر واحد» (صحیح البخاری)
ترجمہ: “اگر کوئی حکیم فیصلہ کرے اور صحیح ہو جائے تو اسے دو اجر ملتے ہیں، اور اگر غلطی سے فیصلہ کرے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔” لیکن یہاں اجتہاد اور علم ہونا شرط ہے، بغیر علم کے فتوی دینا جائز نہیں۔– اسلامی فقہ میں فتویٰ دینے سے پہلے ضروری ہے کہ عالم دین یا قاضی مکمل تحقیق اور علم سے کام لے۔

2۔ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کر دینا:

اسلام میں خبر رسانی اور بات چیت کی حدود مقرر کی گئی ہیں تاکہ فتنہ و فساد نہ پھیلیں۔ بغیر تصدیق اور سوچے سمجھے بات آگے پھیلانا نہ صرف دوسروں کے حق میں نقصان دہ ہے بلکہ گناہ بھی ہے۔– نبی ﷺ نے فرمایا:
«من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرًا أو ليصمت» (صحيح البخاري)
ترجمہ: “جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ یا تو اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔”– ایک اور حدیث میں آیا:
«إن من أبغض الناس إلى الله الثرثارون والكذابون» (سنن النسائي)
ترجمہ: “اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ نفرت کرنے والے لوگ وہ ہیں جو بکواس کرتے اور جھوٹ بولتے ہیں۔”– بے بنیاد باتیں پھیلانے سے نہ صرف دوسروں کی عزت کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ معاشرتی انتشار بھی پیدا ہوتا ہے۔

نتیجہ:
حدیث نبوی ﷺ کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ علم کے بغیر فتوی دینا انتہائی سنگین جرم ہے اور ہر مسلمان کو چاہیے کہ علم حاصل کرے اور سوچ سمجھ کر ہی کوئی فتوی یا بات کرے۔ نیز ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بیان کرنا نہایت نقصان دہ ہے، اس لیے زبان کو قابو میں رکھنا اور اچھے اور مفید کلام کو ترجیح دینا اسلام کی تعلیمات میں شامل ہے۔

سوال نمبر 11:

مشکوۃ المصابیح کی روشنی میں نماز جنازہ کے احکام تفصیل سے بیان کریں۔

نماز جنازہ کے احکام:

1. نماز جنازہ کی فرضیت:
نماز جنازہ فرض کفایہ ہے، یعنی اگر کمیونٹی میں کچھ لوگ ادا کر دیں تو باقی افراد پر فرض نہیں رہتی۔ لیکن اگر کوئی بھی ادا نہ کرے تو تمام مسلمانوں پر گناہ آتا ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
«ما من مسلم يصلي على مسلم يموت إلا كانت عليه شفاعة يوم القيامة» (مشکوۃ المصابیح)
ترجمہ: “کوئی مسلمان ایسا نہیں جو مرنے والے مسلمان پر نماز جنازہ پڑھے مگر قیامت کے دن اس کے لیے شفاعت کا سبب بنے گا۔”

2. نماز جنازہ کے ارکان اور رکعتیں:
نماز جنازہ کی چار رکعتیں نہیں ہوتیں، بلکہ یہ ایک غیر رکعتی نماز ہے جس میں چار تکبیریں ہوتی ہیں۔
– پہلی تکبیر کے بعد نیت کی جاتی ہے۔
– دوسری تکبیر کے بعد فاتحہ شریف پڑھی جاتی ہے۔
– تیسری تکبیر کے بعد درود پاک پڑھا جاتا ہے۔
– چوتھی تکبیر کے بعد دعا کی جاتی ہے۔
پھر سلام پھیرا جاتا ہے۔
نبی ﷺ کی حدیث ہے:
«صلوا عليها أربع تكبيرات» (مشکوۃ المصابیح)
ترجمہ: “نماز جنازہ میں چار تکبیریں پڑھیں۔”

3. نماز جنازہ کا طریقہ:
– جنازہ کی نماز کھڑے ہو کر پڑھی جاتی ہے۔
– ہاتھ باندھنے کی کوئی شرط نہیں، بلکہ ہاتھ سادہ رکھنے یا سینے پر باندھنے میں مختلف اقوال ہیں۔
– نماز میں رکوع، سجدہ یا دو رکعت والی صورت نہیں ہوتی، بلکہ سیدھی کھڑے ہو کر تکبیریں پڑھ کر دعائیں کی جاتی ہیں۔
– ہر تکبیر کے بعد مخصوص الفاظ پڑھے جاتے ہیں جیسا کہ فاتحہ، درود پاک اور دعائیں۔


4. نماز جنازہ کی ادائیگی کا وقت:
جنازہ کی نماز کا وقت مرنے کے فوراً بعد سے لے کر دفن ہونے تک ہوتا ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
«عجّلوا بالجنازة» (مشکوۃ المصابیح)
ترجمہ: “جنازہ کو جلدی سے دفن کرو۔”

5. نماز جنازہ کی جگہ:
نماز جنازہ مسجد، قبرستان یا کسی بھی کھلے میدان میں پڑھی جا سکتی ہے جہاں لوگوں کی اجتماع کی گنجائش ہو۔
عام طور پر مسجد کے صحن یا قبرستان میں ہی پڑھی جاتی ہے تاکہ زیادہ لوگ شریک ہو سکیں۔

6. نماز جنازہ میں مردوں اور عورتوں کی شرکت:
مردوں کا نماز جنازہ میں شرکت کرنا زیادہ مستحب اور سنت ہے۔ خواتین کی شرکت جائز ہے لیکن ان کے لیے الگ جگہ مختص کی جاتی ہے۔
نبی ﷺ کی حدیث ہے:
«نساء المؤمنين شهداء في جنازة» (مشکوۃ المصابیح)
ترجمہ: “مومن خواتین بھی جنازہ میں حاضر ہو سکتی ہیں۔”

7. نماز جنازہ کے بعد دعا:
نماز جنازہ کے بعد جنازہ کے لیے دعا کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو مغفرت اور جنت الفردوس عطا فرمائے اور باقی ماندگان کو صبر دے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
«اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه» (مشکوۃ المصابیح)
ترجمہ: “اے اللہ! اسے معاف فرما، اس پر رحم کر، اسے صحت دے اور اس کے گناہوں کو بخش دے۔”

8. جنازہ کے لیے دعا کی اہمیت:
دعا کرنا جنازہ کے بعد سب سے اہم عمل ہے کیونکہ اس میں مرحوم کے لیے بخشش اور نجات کی درخواست کی جاتی ہے، اور یہ تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ دعا کریں۔

9. نماز جنازہ کے حوالے سے اہم احادیث:
«من صلى على جنازة كان له مثل أجر الميت من غير أن ينقص من أجره شيء» (مشکوۃ المصابیح)
ترجمہ: “جو کوئی جنازہ کی نماز پڑھے گا اسے مرحوم کے برابر اجر ملے گا بغیر اس کے اجر میں کمی کے۔”
«الجنازة أربع تكبيرات» (مشکوۃ المصابیح)
ترجمہ: “نماز جنازہ میں چار تکبیریں ہوتی ہیں۔”

نتیجہ:
مشکوۃ المصابیح کی روشنی میں نماز جنازہ نہایت اہم عبادت ہے جو مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے۔ اس نماز کا طریقہ، ارکان، فضائل اور دعائیں واضح طور پر بیان ہوئی ہیں۔ اس کی ادائیگی میں سنّت کی پیروی کرنا، جلد از جلد نماز ادا کرنا اور مرحوم کے لیے دعا کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے تاکہ مرحوم کو مغفرت اور جنت کا مقام مل سکے۔

سوال نمبر 12:

علم اور علماء کے موضوع پر ایک جامع نوعیت کا مضمون قلم بند کیجئے۔

علم اور علماء

علم انسان کی زندگی کا وہ زیور ہے جو اسے جہالت کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔ علم کی اہمیت ہر دور میں مسلمہ رہی ہے، خاص طور پر اسلام میں علم کو بڑی قدر اور اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن کریم اور احادیث نبوی ﷺ میں علم کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور علماء کی عزت و توقیر کا بار بار ذکر ملتا ہے۔

علم کی اہمیت:

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ» (سورۃ العلق، آیت 1)
یعنی “اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے پیدا کیا۔”

یہی پہلی وحی تھی جو انسان کو علم حاصل کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ علم کے بغیر انسان نہ تو اپنی دنیاوی زندگی بہتر بنا سکتا ہے اور نہ آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ علم انسان کو سچائی، حق اور فہم کی راہ دکھاتا ہے۔

علماء کا مقام اور کردار:

اسلام میں علماء کو بہت بلند مقام دیا گیا ہے کیونکہ وہ علم کے نور کو دوسروں تک پہنچانے والے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«فضل العالم على العابد كفضلي على أدناكم» (صحیح مسلم)
ترجمہ: “ایک عالم کی فضیلت ایک عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے میری تم سب میں سے سب سے زیادہ ہے۔”

علماء نہ صرف دین کی تعلیم دیتے ہیں بلکہ معاشرے میں امن، انصاف اور ہدایت کے پیغامبر بھی ہوتے ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ علم کو خالص اور صاف طریقے سے عوام تک پہنچائیں اور گمراہ کن باتوں سے بچائیں۔

علم اور تقویٰ کا تعلق:

علم کا حقیقی ثمر تقویٰ اور عمل صالح ہے۔ صرف علم حاصل کرنا کافی نہیں بلکہ اس علم کو زندگی میں نافذ کرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
«إنما يخشى الله من عباده العلماء» (سورۃ فاطر، آیت 28)
یعنی “اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے اس کے بندے ہی ہیں جو علم رکھتے ہیں۔”

علماء کی ذمہ داریاں:
  • دین کی صحیح تعلیم دینا اور عوام الناس کو گمراہی سے بچانا۔
  • علم کے فروغ کے لیے مدارس اور تعلیمی ادارے قائم کرنا۔
  • مسائل شرعیہ کا حل پیش کرنا اور فتویٰ دینا۔
  • علم کو عام کرنا اور جہالت کے خلاف جدوجہد کرنا۔
علم کا حصول اور طلبہ کا مقام:

طلبہ کا فرض ہے کہ وہ علم حاصل کرنے میں جد و جہد کریں کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا:
«طلب العلم فريضة على كل مسلم» (ابو داؤد)
ترجمہ: “علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔”

نتیجہ:

علم اور علماء کی اہمیت کا ادراک ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بنا سکے بلکہ دوسروں کی رہنمائی کا ذریعہ بھی بنے۔ علم سے ہی معاشرہ ترقی کرتا ہے، فلاح حاصل ہوتی ہے اور جہالت کے اندھیروں سے نجات ملتی ہے۔ اس لیے چاہیے کہ ہم علماء کا احترام کریں، علم حاصل کریں اور اسے اپنے عمل میں لائیں تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو اور دنیا و آخرت کی کامیابی نصیب ہو۔

سوال نمبر 13:

باب الجمعہ کی روشنی میں آداب ، فضائل و احکام جمعہ تحریر کیجئے۔ یا جمعہ کے فضائل و برکات اور احکام قلم بند کریں۔

باب الجمعہ کی روشنی میں آداب، فضائل و احکام جمعہ

جمعہ کے فضائل:
  • جمعہ دن کو ہفتے کا بہترین دن قرار دیا گیا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
    «خير يوم طلعت عليه الشمس يوم الجمعة» (صحیح مسلم)
    یعنی “وہ سب سے بہترین دن ہے جس دن سورج طلوع ہوتا ہے اور وہ دن جمعہ ہے۔”
  • اس دن میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کا ثواب دیگر دنوں کی عبادت سے زیادہ ہے۔
  • جمعہ کا دن قیامت کے دن کے لیے نشانی اور اشارہ ہے۔
  • جمعہ کے دن کی نماز فرض ہے اور اس کے بغیر جمعہ کا دن مکمل نہیں ہوتا۔
  • اس دن دعا قبولیت کے قریب ہوتی ہے اور گناہوں کی معافی کا بہترین موقع ہے۔
جمعہ کے آداب:
  • صفائی کا خاص خیال رکھنا: جمعہ کے دن غسل کرنا، مسواک کرنا اور خوشبو لگانا سنت ہے۔
  • جلد مسجد جانا: نبی ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کی نماز کے لیے جلدی جانا افضل ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کی جاسکیں۔
  • خوش لباس ہونا: صاف ستھرا اور اچھا لباس پہننا سنت رسول ﷺ ہے۔
  • قرآن کی تلاوت اور ذکر الہیٰ کرنا: مسجد میں جمع ہونا اور قرآن سننا سنت ہے۔
  • خطیب کی بات غور سے سننا: خطبہ جمعہ میں دھیان دینا ضروری ہے کیونکہ یہ نفع پہنچانے والا ہوتا ہے۔
  • دعا کرنا: جمعہ کے دن مخصوص دعاوں کا پڑھنا اور اللہ سے مغفرت کی درخواست کرنا افضل ہے۔
جمعہ کے احکام:
  • جمعہ کی نماز فرض ہے: یہ نماز ہر بالغ، عاقل مسلمان مرد پر فرض ہے۔
  • نماز جمعہ کی ادائیگی مسجد میں جماعت کے ساتھ ضروری ہے: لیکن اگر کسی کو بیماری یا سفر کی وجہ سے مسجد جانا ممکن نہ ہو تو وہ ظہر کی نماز ادا کر سکتا ہے۔
  • جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کے بغیر ظہر کی نماز ادا نہیں ہوتی: کیونکہ جمعہ کی نماز ظہر کی نماز کی جگہ لے لیتی ہے۔
  • خطبہ جمعہ کا سننا فرض ہے: خطبہ نماز جمعہ کا حصہ ہے اور اس کا دھیان دینا واجب ہے۔
  • جمعہ کے دن روزہ رکھنا مستحب ہے: نبی ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کے دن روزہ رکھنا خاص نیکی ہے۔
جمعہ کے دن کی دیگر برکات:

جمعہ کا دن برکتوں سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ بندوں کی دعائیں قبول کرتا ہے، گناہوں کو معاف فرماتا ہے اور بندوں کو بہت زیادہ اجر دیتا ہے۔ جو شخص جمعہ کے دن زیادہ سے زیادہ نوافل اور دعاوں میں مشغول رہتا ہے اس کے لیے جنت میں خاص مقام ہے۔

نتیجہ:

باب الجمعہ کی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جمعہ کا دن مسلمانوں کے لیے ایک عظیم موقع ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت، دعا، توبہ اور اجتماعی اجتماع کا دن ہے۔ اس دن کے آداب کو اپنانا، اس کے فضائل سے مستفید ہونا اور احکام کی پابندی کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے تاکہ اس دن کی برکات اور ثواب حاصل ہو سکیں۔

سوال نمبر 14:

کفن و دفن اور زیارت قبور کے احکام کو احادیث کی روشنی میں بیان کیجئے۔

کفن و دفن کے احکام اور ان کی فضیلت

اسلام میں میت کی کفن و دفن کی مکمل ہدایات اور آداب موجود ہیں تاکہ عزت و احترام کے ساتھ مرحوم کو آخری آرام گاہ تک پہنچایا جا سکے۔ کفن عام طور پر سادہ سفید کپڑوں پر مشتمل ہوتا ہے، اور مرد کے لیے تین سفید چادریں اور عورت کے لیے پانچ چادریں استعمال کی جاتی ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
«إن الله عز وجل يحب إذا عمل أحدكم عملاً أن يتقنه» (صحیح مسلم)
یعنی “اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ جب تم میں سے کوئی کام کرے تو اسے عمدگی سے کرے۔”

کفن کی وضاحت:
کفن میں سادگی اور حشمت دونوں کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ اس میں اضافی آرائش یا مہنگے کپڑوں کا استعمال اسلام میں پسندیدہ نہیں۔ یہ عمل آخرت کی تیاری اور دنیاوی اسباب سے آزادگی کا مظہر ہے۔

دفن کے احکام:
دفن کے لیے قبر کھودنا فرض ہے اور قبر کو مناسب گہرائی میں بنانا ضروری ہے تاکہ میت کی حفاظت ہو۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
«أسرعوا بالجنازة» (صحیح مسلم)
یعنی “جلدی کرو جنازے کے معاملات میں۔”

میت کو سیدھا قبر میں لٹانا سنت ہے اور چہرہ قبلہ کی جانب کرنا مستحب ہے۔ قبر کے اوپر سخت چیزیں نہ رکھی جائیں تاکہ میت کو تکلیف نہ ہو۔

زیارت قبور کے احکام اور فضائل

زیارت قبور اسلام میں مستحب اور فائدہ مند عمل ہے۔ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«كنت نهيتكم عن زيارة القبور، فزوروها فإنها تذكر الآخرة» (صحیح مسلم)
یعنی “میں تمہیں قبور کی زیارت سے روکتا تھا، لیکن اب تم قبور کی زیارت کرو کیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہے۔”

قبور کی زیارت انسان کو موت اور آخرت کی یاد دلاتی ہے، جس سے تقویٰ اور توبہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ تاہم، شرعی حدود کا خیال رکھتے ہوئے زیارت کرنی چاہیے تاکہ شرک اور بدعت سے بچا جا سکے۔

قبور پر دعا اور استغفار:
زیارت کے دوران مرحومین کے لیے دعا اور استغفار کرنا مستحب ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
«إذا مررتم على القبور فقولوا السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين، وإن شاء الله نلحق بكم» (صحیح مسلم)
یعنی “جب تم قبور کے پاس سے گزرو تو کہو سلام ہو تم پر اے اہل خانہ، جو مومن اور مسلم ہو، اگر اللہ چاہے ہم بھی تمہارے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔”

نتیجہ:

اسلام میں کفن و دفن اور زیارت قبور کے واضح احکام اور آداب بیان کیے گئے ہیں جو انسانی وقار اور آخرت کی تیاری کا درس دیتے ہیں۔ کفن و دفن میں سادگی اور عاجزی کی تاکید کی گئی ہے، اور زیارت قبور انسان کو موت کی یاد دلاتی ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھالے۔ حدیث نبوی کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ یہ امور نہ صرف اسلامی تعلیمات کا حصہ ہیں بلکہ انسان کی دینی اور اخلاقی تربیت کا بھی ذریعہ ہیں۔

سوال نمبر 15:

درج ذیل نمازوں کے احکام تحریر کریں: ۱۔ نماز وتر ۲۔ نماز بیٹی ۳۔ نماز استسقی ۴۔ نماز سفر ۵۔ نماز استخارہ

۱۔ نماز وتر کے احکام

نماز وتر نمازِ شب کی آخری اور اہم نماز ہے، جو طاق رکعتوں میں پڑھی جاتی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
«الوتر حق على كل مسلم» (صحیح بخاری)
یعنی “وتر ہر مسلمان پر واجب ہے۔”

  • وتر کی کم از کم ایک رکعت اور زیادہ سے تین، پانچ، سات، نو یا گیارہ رکعت ہو سکتی ہے۔
  • وتر میں قعدہ آخری رکعت میں ہوتا ہے اور دعائے قنوت پڑھنا مستحب ہے۔
  • وتر نماز عام طور پر عشاء کے بعد پڑھی جاتی ہے، لیکن رات کے کسی بھی حصے میں پڑھی جا سکتی ہے۔
  • وتر فرض نہیں بلکہ واجب ہے، اس کا ترک معافی کے بغیر گناہ ہے۔

۲۔ نماز بیٹی کے احکام

نماز بیٹی، جسے نماز حاجت بھی کہتے ہیں، ایک نفلی نماز ہے جو خاص حاجت یا مشکل کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
«من استخار الله تعالى يسره له أمره» (مسند احمد)
یعنی “جو اللہ سے حاجت کی نماز پڑھ کر دعا کرے، اللہ اس کے کام کو آسان کر دیتا ہے۔”

  • یہ نماز دو رکعت ہوتی ہے اور عام طور پر دعا کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔
  • نماز بیٹی میں مخصوص قراءت یا اذکار کا کوئی مخصوص طریقہ نہیں، بلکہ دل سے دعا اور اللہ سے مدد مانگنا ضروری ہے۔
  • اس نماز کا مقصد اللہ سے کسی خاص حاجت میں مدد حاصل کرنا ہے۔

۳۔ نماز استسقی کے احکام

نماز استسقی خاص طور پر بارش کی دعا کے لیے ادا کی جاتی ہے جب شدید خشک سالی ہو۔ نبی ﷺ نے استسقی کے لیے مخصوص دعا کی تعلیم دی ہے۔

  • نماز استسقی دو رکعت ہوتی ہے، جس کے بعد خطبہ دیا جاتا ہے اور دعا کی جاتی ہے۔
  • یہ نماز عام طور پر جمعہ کے دن یا کسی بھی دن پڑھی جا سکتی ہے۔
  • نماز استسقی میں نبی ﷺ نے مخصوص دعائیں پڑھنے کا حکم دیا ہے، جیسے:
    «اللهم اسقنا الغيث ولا تجعلنا من القانطين»
  • اس نماز کی ادائیگی میں امام کا تقویٰ اور اللہ کی رحمت کی امید ضروری ہے۔

۴۔ نماز سفر کے احکام

مسافر کی نماز میں کچھ آسانیاں دی گئی ہیں تاکہ سفر کے دوران نماز پڑھنا آسان ہو۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
«جعل الله السفر راحة للمؤمن» (سنن ابن ماجہ)
یعنی “اللہ نے سفر کو مومن کے لیے آسانی بنایا ہے۔”

  • مسافر چار رکعت فرض نمازوں کو دو رکعت پڑھ سکتا ہے (قصر کرنا)۔
  • مسافر کے لیے نمازوں کو جمع کرنا بھی جائز ہے، یعنی ظہر اور عصر، اور مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ پڑھنا۔
  • قصر اور جمع کی حالت میں وضو باقی رہتا ہے جب تک پانی کی کمی نہ ہو۔
  • مسافر کی تعریف عام طور پر ۸ فرسخ یا تقریباً ۴۰ کلومیٹر سفر کو سمجھا جاتا ہے۔

۵۔ نماز استخارہ کے احکام

نماز استخارہ اللہ تعالیٰ سے کسی معاملے میں صحیح فیصلہ کرنے کی دعا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
«إذا هم أحدكم بالأمر فليصل ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك…» (صحیح بخاری)
یعنی “جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نماز پڑھے اور پھر استخارہ کی دعا پڑھے۔”

  • نماز استخارہ دو رکعت نفلی نماز ہے، جو کسی بھی وقت پڑھی جا سکتی ہے۔
  • نماز کے بعد مخصوص دعا پڑھی جاتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور آسانی کی درخواست کی جاتی ہے۔
  • یہ نماز اس وقت پڑھی جاتی ہے جب انسان کو کسی معاملے میں فیصلہ کرنے میں تذبذب ہو۔

نتیجہ:

یہ نمازیں اسلام کی عبادات میں خاص اہمیت رکھتی ہیں اور ہر نماز کا اپنا مخصوص وقت، طریقہ اور فضیلت ہے۔ نماز وتر روحانی سکون اور مکمل شب بیداری کا ذریعہ ہے، نماز بیٹی اللہ سے حاجت کے لیے دعا ہے، نماز استسقی قدرتی آفات میں مدد طلب کرنے کی علامت ہے، نماز سفر میں آسانی کا باعث بنتی ہے، اور نماز استخارہ زندگی کے فیصلوں میں اللہ کی رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ ان تمام نمازوں کو نبی ﷺ کی تعلیمات اور احادیث کی روشنی میں ادا کرنا افضل ہے۔

سوال نمبر 16:

مریض کی عیادت کے بارے میں آپ ﷺ کے ارشادات کی وضاحت کریں۔

مریض کی عیادت کی اہمیت اور فضیلت

اسلام میں مریض کی عیادت کو بہت بڑی فضیلت اور اجر کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
«من عاد مريضا كان كمن تطوع بالصيام وقيام الليل» (سنن الترمذی)
یعنی “جو شخص مریض کی عیادت کرتا ہے اسے ایسا ثواب ملتا ہے جیسے اس نے نفلی روزے رکھے اور رات کی عبادت کی۔”

اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا:
«الصدقة على المريض صدقة والزيارة بركة»
یعنی “مریض پر صدقہ کرنا صدقہ ہے اور اس کی عیادت کرنا برکت ہے۔”

عیادت کے آداب و ارشادات

  • جلدی عیادت کرنا: نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
    «أسرعوا بالعيادة فإنها بركة» (سنن ابن ماجہ)
    یعنی “عیادت میں جلدی کرو کیونکہ اس میں برکت ہے۔”
  • مریض کو تسلی اور ہمت دینا: عیادت کرنے والا مریض کو امید دلائے اور اس کی روحانی ہمت بڑھائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
    «لا تحقرن من المعروف شيئا ولو أن تلقى أخاك بوجه طلق» (صحیح مسلم)
    یعنی “نیکی کے کسی عمل کو حقیر نہ سمجھو چاہے وہ تمہارا بھائی سے خوش اخلاقی سے ملنا ہی کیوں نہ ہو۔”
  • دعا کرنا: عیادت کے دوران مریض کے لیے دعا کرنا مستحب ہے، کیونکہ دعا شفاء کا ذریعہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
    «الدعاء للمرضى مستجاب»
  • مریض کی حالت کا احترام: مریض کی حالت کو سمجھتے ہوئے اس پر بوجھ نہ ڈالنا اور اس کی ضرورت کے مطابق مدد فراہم کرنا چاہیے۔

عیادت کی برکتیں

مریض کی عیادت کرنے والا نہ صرف مریض کی مدد کرتا ہے بلکہ خود بھی اللہ کی رحمت اور مغفرت کے قریب ہوتا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
«الذي يزور المريض أو المؤمن في مصيبته، كان مع الله يوم القيامة حتى يرجع» (سنن الترمذی)
یعنی “جو شخص مریض یا کسی مومن کی مصیبت میں عیادت کرے گا قیامت کے دن تک اللہ کے ساتھ ہوگا جب تک وہ واپس نہ آئے۔”

نتیجہ:

مریض کی عیادت اسلام میں ایک عظیم عبادت اور انسانیت کی خدمت ہے۔ آپ ﷺ کے ارشادات کے مطابق، یہ عمل نہ صرف مریض کی روحانی اور جسمانی تکلیف کو کم کرتا ہے بلکہ عیادت کرنے والے کو بھی دنیا و آخرت میں اجر عظیم نصیب ہوتا ہے۔ عیادت کے آداب پر عمل کرکے ہم نبی کریم ﷺ کی سنت کو زندہ کر سکتے ہیں اور معاشرے میں محبت اور ہمدردی کو فروغ دے سکتے ہیں۔

سوال نمبر 17:

تعلیم و تعلم کے آداب بیان کریں۔

تعلیم و تعلم کی اہمیت:

اسلام نے علم حاصل کرنے کو ہر مسلمان پر فرض قرار دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«طلب العلم فريضة على كل مسلم» (ابو داؤد)
یعنی “علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔”

تعلیم و تعلم کے آداب:

  • نیت کی پاکیزگی: علم حاصل کرنے کی نیت خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے تاکہ یہ عمل عبادت بن جائے۔
  • استاد کا احترام: استاد کو عزت دینا، ان کی بات توجہ سے سننا اور ادب کے ساتھ سوالات کرنا ضروری ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
    «من طلب العلم فليكن متواضعاً» یعنی “جو علم طلب کرے اسے عاجز اور متواضع ہونا چاہیے۔”
  • صبر و تحمل: علم حاصل کرنا وقت طلب اور محنت والا عمل ہے، اس لیے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔
  • یادداشت اور دھیان: علم کو یاد رکھنے اور اسے سمجھنے کے لیے مکمل دھیان اور توجہ دینا ضروری ہے۔
  • علم کو عملی زندگی میں لانا: صرف علم حاصل کرنا کافی نہیں، اسے اپنی زندگی میں نافذ کرنا اور دوسروں کو بھی سکھانا فرض ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
    «خيركم من تعلم العلم وعلمه»
    یعنی “تم میں سے بہترین وہ ہے جو علم سیکھے اور دوسروں کو بھی سکھائے۔”
  • غلطیوں سے نہ ہارنا: شروع میں غلطیاں کرنا فطری ہے، مگر ہار نہیں ماننی چاہیے اور کوشش جاری رکھنی چاہیے۔
  • علم میں فروغ اور اشتراک: علم کو چھپانا نہیں چاہیے بلکہ دوسروں کے ساتھ اشتراک اور تبلیغ کرنی چاہیے۔
  • تقدس اور تواضع: علم کو فخر کا ذریعہ نہیں بلکہ عاجزی کا سبب بنانا چاہیے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
    «العلماء ورثة الأنبياء»
    یعنی “علماء انبیاء کے وارث ہیں۔”

نتیجہ:

تعلیم و تعلم کے آداب کی پاسداری سے انسان نہ صرف دنیا و آخرت میں کامیاب ہوتا ہے بلکہ وہ معاشرے کے لیے بھی ایک مثبت کردار ادا کرتا ہے۔ علم کی طلب میں خلوص نیت، صبر، احترام، اور تواضع اسلامی تعلیمات کا حصہ ہیں جو انسان کو بلند مقام تک پہنچاتے ہیں۔

AIOU Guess Papers, Date Sheet, Admissions & More:

AIOU ResourcesVisit Link
AIOU Guess PaperClick Here
AIOU Date SheetClick Here
AIOU AdmissionClick Here
AIOU ProspectusClick Here
AIOU Assignments Questions PaperClick Here
How to Write AIOU Assignments?Click Here
AIOU Tutor ListClick Here
How to Upload AIOU Assignments?Click Here

Related Post:

Share Your Thoughts and Feedback

Leave a Reply

Sharing is Caring:

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp
Pinterest